• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5اگست 2019برصغیر پاک و ہند کا وہ تاریک ترین دن ہے جس روز بھارت نے اپنے ہی آئین و قانون کو اپنے پائوں تلے رونددیا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا 75سال کے دوران بھارت نے تحریک آزادی کشمیر کی آزادی کو عملاً ختم کرنے کے لئے دوسری بار کاری ضرب لگائی پہلی بار ڈوگرہ راج ختم کر کے اپنی مسلح افواج کے ذریعے کشمیر کے وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا جب کہ دوسری بار کشمیر میں کشمیریوں کواقلیت میں تبدیل کرنےکی شعوری کوشش کی گئی جس سے خطے کےامن کو خطرات لاحق ہو گئے چین اس خطے کا اہم ملک ہے اس نے بھارت کے عزائم کو بھانپتے ہوئے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں اٹھایا۔ بھارت میں نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ پرست اور پاکستان دشمن حکومت نے5 اگست 2019 کو آئین کے آرٹیکل370 اور 35 اے کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر میں ’’غیر کشمیریوں ‘‘کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا بھارت کی اس دہشت گردی و توسیع پسندی کے خلاف پاکستان سمیت پوری دنیا میں دوست ممالک بالخصوص چین ، ترکی اور سعودی عرب نے احتجاج کیا بظاہر عمران خان حکومت نے اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھایا لیکن بعد ازاں عمران خان حکومت نے چپ سادھ لی ،شہباز شریف کی16ماہ کی حکومت میں اس مسئلہ کو دوبارہ عالمی سطح پر اٹھایا گیا لیکن ایک بار خاموشی اختیار کرنے سے مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ہلال احمد کا تعلق وادی کشمیر سے ہے جو32سال قبل جہاد کشمیر میں حصہ لینے کیلئے آزاد کشمیر آگیا تھا اب قلمی جہاد کر رہا ہےاس نے بتا یا کہ بھارت نے 2019ءکے بعد مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی قیادت سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کیا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چار سال بعد بھی کشمیر میں بھارت کی سخت گیر کارروائیاں جاری ہیں۔2019 ء کے اقدام نے متنازعہ علاقے پر بھارت کی گرفت مضبوط کرنے کےلئے حکمراں بی جے پی حکومت کو اپنی پالیسیوں کو لاگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔ آرٹیکل 370 بھارت کے شہریوں کو کشمیر میں مستقل طور پر آباد ہونے یا جائیداد خریدنے سے روکتا تھا تاہم اب نیا ڈومیسائل قانون کسی بھی ایسے بھارتی کو یہ اجازت دیتا ہے جو کشمیر میں 15 سال سے رہا ہو یا وہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرتا رہا ہو، وہ اب ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے لئے درخواست دے سکتا ہے اور اسے زمین اور ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کا حق بھی دیاگیاہے۔کشمیر میں آزادی صحافت پر 2019 ء کے بعد سے غیر معمولی کریک ڈاؤن دیکھا گیا ہے۔ کشمیر کے کئی صحافی اس وقت کشمیر سے باہر سخت قوانین کے تحت بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔ اس سال ایک درجن صحافیوں کو ای میلز موصول ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے پاسپورٹ حکام کے حوالے کردیں یا پھر کارروائی کا سامنا کریں۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی امتیازی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل370 اور 35 اے کو نہ صرف ختم کیا بلکہ مقبوضہ کشمیر کی ہیئت ترکیبی کے منصوبہ کی راہ میں حائل ہونے والے ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں ڈال دیا کچھ کا کوئی اتہ پتہ نہیں بیشتر شہداء کشمیر کے لاشے ہی عقو بت خانوں سے برآمد ہوتے ہیں ۔بھارت نے 5اگست 2019ء کے غیر آئینی اقدام کے بعد کشمیر میں بھارت کے ہندوئوں کو سرکاری سرپرستی میں بسانا شروع کردیا ہے، انہیں اب مقبوضہ کشمیر میں شہری حقوق دیئے جارہے ہیں، ان قابل مذمت اقدامات کا مقصد کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرکے آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کم کرنا ہے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم پورے خطے کے امن واستحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں لہذا ذرائع ابلاغ کو بھارتی منصوبوں کو روکنے کے لئے اپنا مثبت بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ بھارت نے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد کشمیری عوام کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کردیا ہے۔

5اگست 2019 کے بعد کشمیریوں کی سیاسی، ثقافتی اور مذہبی شناخت بتدریج ختم ہورہی ہے۔ دفعہ370 کی منسوخی کے بعد بھارتی حکومت کے ہر ایک قدم سے کشمیر کوغیر یقینی صورتحال، افراتفری، لاقانونیت، تشدد اور مایوسی کے دلدل میں دھکیلا گیا ہے۔ مودی حکومت نے5 اگست 2019ء کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے علاقے پر غیر معمولی فوجی محاصرہ مسلط کردیاتھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 5 اگست 2019کو بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر اپنے آئین کی دفعہ 370کو منسوخ کر دیا اور خطے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرلیا، بھارتی حکومت کی طرف سے علاقے کی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد سے چار سالوں میں جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین