• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گزشتہ دو کالموں میں عرض کرچکا ہوں کہ جس طریقے سے اس ملک میں ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت گھروں اور لوگوں کی گنتی کی جارہی ہے اس کو سندھ کے اکثر سیاسی حلقوں نے مسترد کردیا ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کی ساری قوم پرست پارٹیاں سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت بشمول وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اس نوع کی مردم شماری کو مکمل طور پر مسترد کرچکے ہیں‘سندھ کے قانونی حلقوں کی طرف سے بھی یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ مردم شماری آئین اور قانون کے منافی ہے‘ گزشتہ چند دنوں کے دوران سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کا ایک ہنگامی اجلاس بھی ہوا جس نے 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری کو مکمل فراڈ قرار دیکر اس کی شدید مذمت کی ہے اور الزام عائد کیا کہ اس مردم شماری کے ذریعے وفاقی حکومت سندھ اور بلوچستان کاجغرافیہ تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ بار ایسوسی ایشن نے اس مردم شماری کو غیر آئینی قرار دیا ہے کیونکہ آئین کی شق 51 کے تحت قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کا تعین ہر دس سال کے بعد ہونے والی مردم شماری کے تحت کیا جاتا ہے جبکہ یہ مردم شماری 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے چھ سال بعد محض کچھ نسلی گروہوں کو خوش کرنے کیلئے کی گئی ہے، یہ بھی کم افسوسناک بات نہیں کہ یہ سب کچھ ’’مشترکہ مفادات کی کونسل‘‘ کے ذریعے کرانے کی بجائے وفاقی حکومت سے کرایا گیا جبکہ آئین کی شق 154 اور فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے پارٹ 2کے مطابق ’’مشترکہ مفادات کی کونسل‘‘ ہی مردم شماری کرانے کی ذمہ دار ہے۔ سندھ ہائیکورٹ بار کی اس قرارداد کے بعد اس وقت سندھ بھر کے قانون دان اور اکثر سیاسی حلقوں کی رائے ہےکہ کسی صورت میں بھی سندھ اس مردم شماری کو قبول نہیں کرے گا۔اس ایشو پر کئی قانون دانوں اور سیاسی رہنمائوں نے مجھ سے بات چیت کرتے ہوئے کئی مزید دلچسپ اور افسوسناک انکشافات کئے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق سندھ میں فراڈ کے ذریعے ایک گھر کے افراد اوسطاً 5.84 فی صد ظاہر کئے گئے ہیں جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا صوبوں میں گھر کے افراد اوسطاً ترتیب وار 6.43فیصد اور 6.94فیصد ظاہر کئے گئے ہیں جبکہ ریکارڈ کا جائزہ لینے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ فراڈ ہے۔ ان حلقوں کے مطابق اس جعلی طریقے سے سندھ کے گھروں کی اوسط تعداد 9871602دکھائی گئی ہے۔ سندھ کی آبادی 7کروڑ ہے جبکہ اس تعداد کو مصنوعی طور پر کم کرکے 5.6کروڑ دکھایا گیا ہے۔ مقصد حاصل کرنے کیلئے سندھ کے گھروں کے اوسط افراد کو کم کرکے دکھایا گیا ہے۔ سندھ کے ساتھ یہ فراڈ نام نہاد ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعے کیا گیا۔ اس سلسلے میں جو اعداد و شمار تیار کئے گئے ان کو حکومت ِسندھ اور سندھ کے عوام سے چھپایا گیا‘ ان وجوہات کی بنا پر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد اور دیگر قانون دان اور سیاسی رہنمائوں نے اس مردم شماری کو فراڈ قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کی اوسط گھروں کے افراد کی تعدادکو مساوی بنانے کیلئے اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ سندھ کی آبادی 7کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ ان حلقوں کے مطابق 16 مئی 2023ء کو اعلان کیا گیا کہ سندھ کی آبادی 59 ملین یعنی 5 کروڑ 90 لاکھ ہے مگر اچانک اسے بھی تبدیل کیا گیا اور کہا گیا کہ سندھ کی آبادی 56ملین یعنی 5کروڑ 60لاکھ ہے۔ سندھ کے سیاسی رہنماؤں اور قانون دانوں کا کہنا ہے کہ اس غیر قانونی مردم شماری کے نتیجے میں نہ صرف وفاق اور صوبے کی سیاسی نمائندگی کو نقصان ہوگا بلکہ این ایف سی کے حصے میں بھی سندھ کو بہت بڑا نقصان ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی نمائندگی اور این ایف سی میں حصہ بھی آبادی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے ، صوبوں کی برابری کے اصول کے تحت نہیں ہوتا جبکہ دنیا کے تہذیب یافتہ ملکوں کے وفاق میں یہ تقسیم صوبوں کے مساوی حقوق کے تحت ہوتی ہے۔سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد اور دیگر قانون دانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’فراڈ‘‘ کی بنیاد پر کی گئی اس مردم شماری کو سی سی آئی نے جو منظوری دی ہے اسے فوری طور پر رد کیا جائے اور صوبوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے ہاں خود مردم شماری کرائیں اور اعداد و شمار ظاہر کریں۔

ان حلقوں کے مطابق صوبے نادرا کے فراہم کردہ اعداد و شمار اور اس کے پاس موجود دیگر ریکارڈ کی بنیاد پر مردم شماری کرسکتے ہیں کیونکہ مردم شماری کرانا سی سی آئی کے دائرہ اختیار میں ہے اس ایشو کا وفاقی وزارت منصوبہ بندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ایشو پر سندھ کے اکثر قانون دانوں اور سیاستدان کا موقف ہے کہ 1973ء کے آئین اور 18ویں آئینی ترمیم کے باوجود اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو حقیقی مساوی وفاق میں تبدیل کیا جائے،خاص طور پر لاہور میں قائد اعظم کی صدارت میں سارے ہندوستان کے مسلم لیگی رہنمائوں کے اجلاس میں منظور کی گئی 1940ء کی قرار داد پر انتہائی ایمانداری اور سچائی سے عمل کیا جائے۔ واضح رہے کہ اس قرار داد میں صرف یہ نہیں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جو صوبے شامل ہوں گے وہ خود مختار ہوں گے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ مکمل طور پر بااختیار ہوں گے۔

تازہ ترین