کافی غیر یقینی صورت حال اور قیاس آرائیوں کے بعد نگران وزیر اعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے تاکہ ملک کو نوے دن کی مقررہ مدت میں عام انتخابات کے انعقاد کی طرف لے جایا جا سکے۔ کیا ایسا ہونے کا امکان ہے، یا اقتدار پر قابض رہنے اور انتخابات کوملتوی کرنے کی تدبیر ہورہی ہے؟
جب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندے سے حال ہی میں سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا انتخابات کے انعقاد کیلئے کوئی تاریخ طے کی گئی ہے، تواس نے کندھے اچکاتے ہوئے اس معاملے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کردیا۔ یہ طرز عمل اس مبینہ اسکرپٹ کے عین مطابق ہے جس میں ہم نگرانی کی طویل رات میں کھو چکے ۔ نگران حکومت کسی نہ کسی چیز کی درستی کی کوشش کرتی دکھائی دیتی رہے گی تاکہ انتخابات کیلئے ’’مناسب ‘‘ ماحول بنا لیا جائے ۔ اب کس قسم کے ماحول کا تصور کیا گیا ہے جو بالآخر لوگوں کو اپنی پسند کے نمائندے چننے کیلئے پولنگ اسٹیشنز جانے کی اجازت دے گا؟
آئیے تھوڑی دیر کیلئے اٹک کے قلعے کی طرف چلتے ہیں جہاں عمران خان کو ایک اندھیری اور خستہ حال کوٹھڑی میں قید کیا گیا ہے، جو ’سی‘ کلاس کے زمرے میں آتی ہے ۔اس میں کھلا بیت الخلا ہے اور باقی ماندہ جگہ بمشکل اتنی ہے کہ ایک میٹرس بچھایا جاسکے۔ جب کہ ان کے کیس کاچند دنوں کے اندر غیر معمولی جلد بازی میں فیصلہ سنا دیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کیلئےجلد کوئی تاریخ دینے کیلئے تیار نہیں،یا اس سے قاصر ہیں۔اس دوران خان کو ان بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے جو آئین اور جیل کے ضابطوں کے مطابق ان کا حق ہے۔
اپنے وکلا اور پارٹی کے لوگوں سے ملنے نہیں دیا جا رہا ۔ ان کے معالج کو ان تک رسائی حاصل نہیں۔ اگرچہ سلو پوائزننگ کا خطرہ خارج ازامکان نہیں، لیکن گھر کا کھانا کھانے کی اجازت نہیں ۔ عمران خان کو عملی طور پر قید تنہائی میں رکھا گیا ہے کیونکہ کسی کو ان سے ملنے یا کوٹھڑی کے قریب جانے کی اجازت نہیں ۔ یہاں تک کہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک کا نسخہ فراہم کرنے سے بھی انکار کیاگیا ہے۔کیا اسکرپٹ کے مطابق بتدریج انتخابات کی راہ ہموارکی جارہی ہے؟ ایسا لگتا بھی ہے اور نہیں بھی: اس کیلئے پہلے تو بظاہر حکمت عملی ہے جسے وضع کرلیا گیا ہے ۔ دوسری صورت حال کا عقل و فہم سے ماورا انعقاد ریاست اور اس کے مفادات کیلئے انتہائی خطرناک ہوگا۔ یہ واضح ہے کہ ملک میں اس وقت تک کوئی انتخابات نہیں ہوں گے جب تک منصوبہ ساز خان فیکٹر کو ختم نہیں کر دیتے اور انھیں یقین نہیں ہوجاتا کہ وہ کٹھ پتلیوں کی حکومت میں پسندیدہ افراد کیلئے کوئی چیلنج نہیں بنیں گے ۔ وہ پتلیاں جن کی ڈوریں کسی اور جگہ سے ہلائی جاتی ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ گزشتہ 15مہینوں کی طرح ہمارے پاس ایک ایسی حکومت ہوگی جو نہ تو اپنی مرضی سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو گی اور نہ ہی آزادی ۔ وہ صرف ڈکٹیشن لے گی اور بار بار نتائج دکھائے گی کہ دیے گئے احکامات پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ لیکن پریشان کن سوال جو سر اٹھاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مکمل منصوبہ بندی کے باوجود، سفاک ریاستی آلات کے استعمال کے باوجوداس منصوبے کے کامیاب ہونے کی کوئی گنجائش ہوگی؟ اوراگر اس جنونیت کو بے لگام کرنے کے باوجود مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے تو کیا ہوگا؟
جب خان کو ختم کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا تو یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ بھی اس راستے پر چلیں گے جو اس سے کے پیشروؤں نے اختیار کیا تھا ۔ ملک چھوڑ دیں اور ایک اور وقت کیلئے واپس بلائے جانے کا انتظار کریں۔ ایسا سوچتے ہوئے منصوبہ ساز اس حقیقت کو بھول گئے کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ بھول گئے کہ ایسا خان بھی ہو گا جو لامتناہی اذیت، ذلت اور تکالیف کا شکار ہونے کے باوجود اطاعت کرنے یا سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دے گا۔وہ بھول گئے کہ ایک ایسا خان ہوگا جو ماضی کے فرسودہ طریقوں کو بدلنےکیلئے پرعزم رہے گا اور حقیقی آزادی کے حصول کیلئے نئی راہیں متعین کرے گا۔لہٰذا خان فیکٹر کو ختم کرنے کے بجائے منصوبہ سازوں نے اسے مزید مضبوط کیا ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک آزاد آدمی، یا جیل کی دیواروں کے پیچھے یرغمال بنایا گیا، وہ ہر قسم کے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ وہ ایک ماہر رہنما کی طرح ہے جو مستقل مزاجی، جذبے اور توانائی کے ساتھ الزامات کو فتح کی لکیر میں بدل دیتا ہے ۔ لیکن حتمی بات یہ ہے کہ کسی فرد کی فتح نہیں ہے جو اہمیت رکھتی ہے۔ یہ عوام کی فتح ہے اور وہ جس جگہ میں رہتے ہیں وہ کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ پاکستان ہے جو اہمیت رکھتا ہے۔ اور یہ پاکستان کیلئے ہے کہ خان کو ختم کرنے کے منصوبے کو ترک کر دیا جائے اور اس جہنم کے گڑھے سے نکلنے کیلئے جو ہم نے اپنے لیے کھودا ہے، بات چیت کے ذریعے راستہ تلاش کیا جائے۔ جیسا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ نفرت اور تعصب کی چالیں بند کردی جائیں، عقل کو آگے بڑھنے دیں اوربات چیت سے راستہ تلاش کریں۔
نگران بس نگران ہی رہیں، اور کچھ نہ بنیں۔
(صاحبِ تحریر پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)