ملک کی موجودہ صورتِ حال پر ایک لطیفہ یاد آتا ہے ۔اسکول میں ہمارے ایک استاد تھے ۔ بہت دین دار، نیک اور با علم ۔حیاتیات کے بہت بڑے ماہر تھے ۔ انہوں نے جب لیکچر دیا کہ کیسے پہلا خلیہ اس زمین پر پیدا ہوااور کیسے کروڑوں سال میں ارتقا کے ذریعے انسان نے جنم لیا تو ہم نے اسے ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگے : امتحان کیلئے اپنے ذہن میں تو تمہیں یہ لیکچر اتارنا پڑے گا۔
سر کو بعض اوقات ہنسی کا دورہ پڑتا اور پھر کسی طرح ان کی ہنسی نہ رکتی ۔ان کا ایک طالبِ علم فارغ التحصیل ہو کر گھر جا چکا تھا ۔ کالج جاتے ہی وہ لوفر ہو گیا۔ اس لڑکے کاچچازادناصر علی آیا توسر نے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ ہم اس وقت ایک پارک میں تھے ۔ناصر نے بتایا کہ وہ تو کالج جا کر انتہائی بگڑ گیا ہے ۔ سر نے پوچھا : اس کے والد اس کو کچھ نہیں کہتے ۔ بولا: بس سروہ کیا کہیں ۔ وہ کہتے ہیں ، یہ بھوندو پڑھتا ہی نہیں ہے ۔
’’بھوندو ‘‘کے لفظ سے سر کو پتہ نہیں اچانک کیا ہوا ۔ بے اختیار قہقہے لگانے لگے ۔پارک میں اس وقت بالکل خاموشی تھی ۔ لوگ رک کر ہمیں دیکھنے لگے ۔ قہقہو ں کے درمیان انہوں نے چیختے ہوئے کہا ’’ اس کے باپ نے کہا، یہ بھوندو ہے ، پڑھتا ہی نہیں ہے ‘‘۔اس کے بعد صورتِ حال یہ تھی کہ سر قہقہے لگاتے ہوئے ایک طرف چلتے جا رہے تھے ۔ پھر رک کر وہ ہماری طرف مڑے اور چیختے ہوئے کہا :’’ ا س کے باپ نے کہا یہ بھوندو ہے ، بھوندو۔‘‘سب لوگ ہماری طرف ہی دیکھ رہے تھے ۔ میں اور ناصر اس عجیب و غریب صورتِ حال میں حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
اتنے میں بھونچکا ناصر میرے کان میں بولا: دیکھ یار سر کیا کر رہے ہیں ۔کہنے لگا : بھوندو کا لفظ تو اس کے باپ نے کہا بھی نہیں تھا ۔ یہ تو میں نے اپنی طرف سے کہا ہے ۔اس کے بعد صورتِ حال یہ تھی کہ سر قہقہے لگاتے ہوئے ایک طرف جا رہے تھے اور میں قہقہے لگاتا ہوا دوسری طرف ۔
ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی بنانے والا عمرا ن خان کرپٹ قرار پا کر جیل میں پڑا ہے ۔ اس صورتِ حال میں دل کرتا ہے کہ انسان کسی پارک میں نکل جائے اور آسمان کی طرف منہ کر کے قہقہے لگائے ۔اس پرکوئی آکر اطلاع دے کہ پوری دنیا میں خفیہ جائیدادیں بنانے والا شریف اور زرداری خاندان کرپشن سے پاک صاف قرار پائے ہیں تو قہقہے لگاتا ہوا دوسری طرف نکل جائے ۔
ارشد شریف اور عمران ریاض خان جیسے صحافی اگر تمام حدوں سے گزر گئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں شریفوں اور زرداریوں کی کرپشن کے ثبوت دکھائے جاتے تھے ۔ انہیں یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ دونوں خاندان کرپشن کی اس انتہا تک اتر چکے ہیں کہ ان کے سیاست اور اقتدار میں ہوتے ہوئے یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا ۔ وہ بیچارے اس پہ پکے ہوگئے ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے ۔ملک کی ساری سیاسی جماعتیں عمران خا ن کے خلاف اکھٹی کر دی گئیں ۔ یہ وہ سیاسی جماعتیں تھیں ، جو پاکستان کی پوری تاریخ میں کبھی اکھٹی نہ ہو سکیں۔ مولانا فضل الرحمٰن فرماتے تھے کہ اے این پی پہ حملہ کرنا تو مرے ہوئے سانپ پہ لاٹھی برسانے کے برابر ہے ۔شہباز شریف زرداری صاحب کو زربابا ، چالیس چور کہا کرتے تھے ۔یہ خواہش ظاہر کرتے کہ الٹا لٹکائوں گا، سڑکوں پہ گھسیٹوں گا ۔وہ سب اب متحد ہیں اور مومن قرار پائے ہیں ۔رہی کرپشن تو پورے ملک میں واحد عمران خان ہیں ، جو اس جرم کے مرتکب ہوئے۔ہماری75سالہ تاریخ میں کپتان سے پہلے اور کپتان کے بعد کبھی کسی نے کوئی کرپشن نہیں کی۔
انصاف کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کو دولت اکھٹی کرنے کا شوق ہی نہیں ۔ جہانگیر ترین، علیم خان سمیت تمام سیاستدان اور حتیٰ کہ بشریٰ بی بی سمیت جتنے بھی لوگ کپتان کے گرد اکھٹے ہوئے، وہ دولت کے حریص تھے ۔ اس وقت بھی جو چیزیں عمران خا ن کے گلے پڑی ہوئی ہیں ،وہ بشریٰ بی بی کے طفیل ہیں ۔ ایک منصوبے کے تحت وہ عمران خان کی زندگی میں آئیں ۔ عدت میں نکاح اس لیے کیا کہ کپتان کی صورت میں سونے کی چڑیا ہاتھ سے نکل نہ جائے۔
بعض معاملات میں عمران خان بچوں کی طرح بھولا بھالاہے ۔ جب یہ پیشنگوئی پوری ہو گئی کہ اس نکاح کی برکت سے عمران خان وزیرِ اعظم بن جائیں گے تو اس کے بعد عمران خان بشریٰ بی بی کو اپنا روحانی پیشوا ماننے لگے ۔حقیقت تویہ تھی کہ اس شادی کا ا ن کے حکمران بن جانے سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ عقیدت میں مگر انسان اندھا ہو جاتا ہے ۔انہی کے اصرار پر بزدار کو قائم رکھا ۔فرح گوگی بشریٰ بی بی کی فرنٹ وومین تھی ۔یہ جو بشریٰ بی بی کی مبینہ ڈائری سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کپتان ایک بچے کی طرح بشریٰ بی بی کے احکامات پہ عمل کرتا تھا ، اس میں جزوی طور پر صداقت ہے ۔اس کاسبب یہ نہیں تھا کہ عمران خان کسی عورت کے اشاروں پہ ناچ رہا تھا ۔ایسا اگر ہوتا تو ریحام خان ہی کا تابعدار بن جاتا۔ بشریٰ بی بی کے دام میں وہ روحانیت اور عقیدت کی وجہ سے آیا ۔عقیدت میں ایسا ہی ہوتاہے ۔ اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ شریف اورزرداری خاندانوں کی کرپشن کے مقابلے میں بشریٰ بی بی کی وجہ سے عمران خان پہ جو الزامات عائد ہورہے ہیں ، وہ رائی کا دانہ ہی ہیں ۔اس ملک میں کرپٹ وہی ہے ، جو مقتدر حلقوں سے ٹکر مول لے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)