ہم اپنی روزمرّہ بول چال میں اکثر کچھ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جن کا مطلب کسی لغت میں تو موجود نہیں ہوتا، مگر بول چال میں مستعمل ہونے کے سبب سُننے والا اُن کے معنی بآسانی سمجھ لیتا ہے۔ یہ الفاظ عموماً ہمارے سماج یا تاریخ سے وابستہ کسی شخصیت، واقعے یا جگہ سے منسوب ہوتے ہیں۔ گوکہ ان کا استعمال بہ کثرت ہوتا ہے، لیکن عوام کی اکثریت، بالخصوص نوجوان ان کے تاریخی پس منظر سے ناواقف ہیں۔ لہٰذا آج ہم آپ کے لیے کچھ انتہائی مستعمل محاورات، استعارات وغیرہ کا پس منظر لیے حاضر ہیں، ملاحظہ کیجیے۔
طرّم خان
طرّم خان بہادری کا استعارہ ہے،جو کسی کو سخت مشکل کام کرتے دیکھ کر استعمال کیا جاتا ہے کہ’’تم بڑے طرّم خان بنے پھرتے ہو۔‘‘اس نام سے وابستہ کہانی 1857ء کی جنگِ آزادی کی طرف لے جاتی ہے، جس میں عوام نے اپنی بساط کے مطابق بھر پور حصّہ لیا، مگر اُس وقت کے کئی صاحبانِ اقتدار جیسے نواب ، شہزادے وغیرہ انگریزوں کے خلاف جنگ سے گریزاں رہے۔ نیز ،نظامِ حیدرآباد(حیدر آباد کا حکم ران خاندان) بھی انگریزوں سے جنگ نہیں چاہتے تھے، مگر وہاں کے عوام میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی خواہش موجود تھی، جن کی قیادت طرباز خان نے کی۔
تحقیق کے مطابق وہ بیگم بازار، ضلع حیدرآباد میں پیدا ہوئےاور جنگِ آزادی کے دوران چھے ہزار افراد پر مشتمل ایک فوجی دستہ تیار کرکے نظام حیدرآباد کی اجازت کے بغیر انگریزوں کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کر دیا۔ بد قسمتی سے جنگ کا فیصلہ انگریزوں کے حق میں ہوا، تو اُن کے مخالف باغی کہلائے اور پھر ان باغیوں کی عبرت ناک سزاؤں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ طرباز خان کو قتل کرنے کے بعد اُن کی لاش زنجیروں سے جکڑ کر کئی روز تک انگریز حاکم کے دفتر کے باہر لٹکائے رکھی گئی۔
مگر طرباز خان اور اُن کی بہادری حیدرآباد کے باسیوں کے دل میں گھر کر گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی بہادری کے قصّے پورے برّصغیر میں پھیل گئے، مگر نام بگڑتے بگڑتے ’’طرباز خان‘‘ سے ’’طرّم خان‘‘ ہوگیا۔ بیگم بازار میں ایک گلی آج بھی اُن کے نام سے منسوب ہے اور خواتین کے کالج کے نزدیک ایک پُرانی تاریخی یاد گار بھی اُن ہی سے منسوب کی جاتی ہے۔
تیس مار خان
’’تیس مار خان‘‘ کی کہانی ایک ایسے شخص سے منسوب ہے، جس نے تیس جانور یا آدمی مارے تھے۔ محاورتاً یہ نام کسی بہادر آدمی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔تیس مار خان کی ابتدا کہاں سے ہوئی ،اس سے متعلق ویسے تو کئی کہانیاں موجود ہیں، لیکن تحقیق کے مطابق اس کا ماخذ بھی نظام حیدرآباد ہی ہے۔ سر میر محبوب علی خان صدّیقی ریاستِ حیدرآباد کے چَھٹے حکم ران (نظام)تھے۔اُن کے عہد میں ریاست میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے، جن میں ریلوے لائن کی تعمیر اور حیدرآباد میں میڈیکل کالج کا قیام نمایاں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اُس دَور میں جنگلی شیر دیہاتی عوام کو بہت تنگ کرتے تھے، میر محبوب علی خان کو جب بھی کسی شیر کی سفاکیوں کی اطلاح ملتی، تو وہ خود اُسے مار کر عوام سے داد اور دُعائیں وصول کرتے۔ روایات کے مطابق اُنھوں نے تنِ تنہاکئی خطرناک آدم خور شیروں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔
اسی کارنامے کی بدولت وہ اہلِ دیہات میں ’’تیس مار خان‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ لقب محاورے کی صورت اختیار کر گیا اور پورے برّصغیرمیں مشہور ہو گیا۔ یاد رہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میر محبوب علی خان ایک نرم دل انسان اور رحم دل حاکم تھے، وہ صرف اُن ہی شیروں کا شکار کرتے، جو انسانوں کے لیے خطرہ بنتے۔
حاتم طائی
اُردو یا عربی زبان میں کسی کی سخاوت کی تعریف کرنی ہو، تو اُسے ’’حاتم طائی‘‘سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔حاتم طائی چَھٹی صدی عیسوی کے عربی شاعر تھے، اُن کی ماں نے، جو اعلیٰ کردارکی حامل،ایک سخی خاتون تھیں، حاتم کی تربیت بھی اسی انداز میں کی۔ یہی وجہ تھی کہ حاتم بچپن ہی سے انتہائی سخی تھے۔اُنہیں کچھ بھی بچا کر رکھنے کی عادت نہ تھی، دادا کی طرف سے جو بھی ملتا، وہ غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے۔حاتم کی سخاوت کے بہت سے قصے مشہور ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ حاتم سخی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہادر انسان بھی تھے۔ میدانِ جنگ میں اُنہیں شکست دینا آسان نہ تھا۔ حاتم کی اولاد میں دو بیٹوں، عبداللہ، عدی اور بیٹی سفانہ کا ذکر ملتا ہے۔ عہدِ رسالتﷺ میں جب طائی قبیلے پر فتح حاصل کی گئی، تو دیگر قیدیوں کے ساتھ سفانہ کو بھی دربارِ رسالتﷺ میں پیش کیا گیا۔ مگر نبی کریمﷺ نے اُسے نہایت عزّت و احترام سے واپس بھجوا دیا۔ بعدازاں اسی اچھے سلوک سے متاثر ہوکر عدی بن حاتم اور سفانہ نے اسلام قبول کرلیا۔
شیخ چِلّی
اُردو زبان و ادب میں’’شیخ چِلی‘‘ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے،جو خیالی پلاؤ پکانے کا ماہر ہو، یعنی جو باتیں تو بڑی بڑی کرے، لیکن عملی طور پرکاہل ہو۔شیخ چلی کون تھا اور کیوں مشہور ہوا، اس پر محققین کی مختلف آراء موجود ہیں۔ جیسا کہ اُردو کے معروف صحافی، ادیب اور محقّق منشی سجاد حُسین نے شیخ چلّی کی زندگی پر اپنی تحقیق ’’حیاتِ شیخ چِلی‘‘ کے نام سے شایع کی۔اور اسی کے مطابق شیخ چلی، اکبر بادشاہ کے عہد میں ہندوستان کے شہر بدایوں کے قریب ایک قصبے، چلّہ کے ایک خوش حال گھرانے میں پیدا ہوااوراس کا باپ کسان تھا۔
بچپن ہی سے شیخ چلّی کی عادات عام بچّوں سے مختلف تھیں۔ وہ دودھ شوق سے نہ پیتا، کڑوی چیزیں مثلاً نیم، ایلوویرا وغیرہ شوق سے کھاتا۔نیز، اُسے کھیل کُود سے بھی کچھ خاص رغبت نہ تھی، ہم عُمر بچّے کھیل رہے ہوتے، تو ان کے ساتھ کھیلنے کے بجائے دُور بیٹھ کر اُنھیں صرف مشورے دینے پر اکتفا کرتا۔ آسمان چُھونے اور ہوا میں اُڑنے کی خواہش میں سارا سارا دن کھویا رہتا۔
علم وحکمت سے قطعاً کوئی رغبت نہ تھی، مگر باتیں بنانے اور لطیفہ گوئی کا ماہر تھااور اُس کی یہ ہی خوبی اُسے اکبر بادشاہ کے دربار تک لے گئی۔ منشی سجّاد نے اپنی کتاب میں شیخ چلّی کے کئی دل چسپ اور کچھ حماقت انگیز واقعات بھی رقم کیے ہیں۔ جب کہ ایک دوسری تحقیق کے مطابق شیخ چِلّی کا ااصل نام عبدالکریم، عبدالرزّاق تھا اور وہ سترھویں صدی کے صوفی بزرگ تھے۔ بادشاہ اورنگ زیب کا بھائی، دارالشکوہ، جو اولیا ءاللہ کا بڑا قدردان تھا، اُن کا مرید تھا اور بھارت کی ریاست ہریانہ میں شیخ چِلّی کا مزار بھی موجود ہے۔
حکیم لقمان
مشہور مقولہ ہے کہ ’’وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔‘‘ حضرت لقمان نہایت دانا اور اللہ سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ان کا تذکرہ قرآن ِ کریم میں بھی موجود ہے۔ ایک بار کسی نے حکیم لقمان سے سوال کیا کہ آپ دانائی اور ایمان کے اس درجے پرکیسے فائز ہوئے، تو انہوں نے فرمایا ’’ہمیشہ سچ بول کر، امانتوں کی حفاظت کر کے اور بےکار باتوں سے پرہیز کر نے پر اللہ نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا ہے۔‘‘
چھجّو کا چوبارا
اُردو میں مثل مشہور ہے’’جو سُکھ چھجّو کے چوبارے، وہ بلخ نہ بخارے‘‘ یعنی جو آرام و آسائش انسان کو اپنے گھر میں ملتاہے، وہ بلخ(افغانستان کا شہر) اور بُخارا (ازبکستان کا شہر) میں بھی نہیں مل سکتا۔ چند سو برس قبل تک اہلِ برّصغیر کے لیے بلخ اور بخارا کے شہر اپنی دُوری اور خُوب صُورتی کی بدولت دیو مالائی شہروں کی حیثیت رکھتے تھے، جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چھجّو، جہاں گیر بادشاہ کے عہد سے تعلق رکھتا تھا اور موجودہ میو اسپتال اور انارکلی بازار کے نزدیک ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا۔ اور کمرے کے نیچے اُس کی دُکان تھی اور بلندی پر رہائش کی وجہ سے اُس کا گھر چوبارے کے نام سے معروف تھا، جب کہ درویشانہ طبیعت کے باعث اُس کا گھر درویشوں کی خدمت کے لیے ہر وقت کُھلا رہتا تھا۔چھجّو کی موت بھی ایک معمّا رہی ہے۔ روایات کے مطابق وہ ایک روز اپنے کمرے (چوبارے) سے غائب ہو گیا اور پھر اُسے کسی نے نہیں دیکھا۔
کالا پانی
ہماری بول چال میں کالا پانی کی ترکیب دُوردراز علاقوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کی ابتدا برصغیر کے سیاسی قیدیوں کی جیل کی صُورت میں ہوئی، جنھیں انگریز حکومت کے دَور میں سزا کے طور پر دُور دراز علاقوں میں بھجوا یا جاتا تھا۔کالا پانی دَرحقیقت خلیج بنگال میں572جزائر پر مشتمل ایک علاقہ ہے، جسے ’’انڈمان اور نکوبار‘‘ کے جزائر کا نام دیا جاتا ہے، جو جنوبی ہند کے علاقے میں شامل ہیں۔
ان جزیروں میں پانچ سو سے زائد جزیرے اب بھی غیر آباد ہیں، جن تک پہنچنا انتہائی دشوار گزار ہے۔1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد انگریز حکم رانوں نے آزادی کے متوالوں کو سزا کے طور پر یہاں بھیجنا شروع کیا تھا، جہاں سے فرار ناممکن تھا اور سیاسی قیدی تن تنہا کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے۔ 1896ء میں انگریز حکومت نے یہاں باقاعدہ جیل کی عمارت بنانا شروع کی، جسے ’’سیلولر جیل‘‘ کا نام دیا گیا۔آزادی کے بعد اس جیل کا استعمال ختم ہوگیا۔ نیز، 1963ء میں جیل کے ایک حصّے میں 500بستروں کا اسپتال بھی قائم کیا گیا۔
14طبق
’’14طبق روشن ہو جانا ‘‘ایک محاورہ ہے، جسے ویسے تو طنزیہ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا مطلب کوئی ایسی بات سُننا یا جاننا ہے، جس سے علم میں اضافہ ۔طبق کا لفظی معنی خطّہ،تختہ یا پرت کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو سات پرتوں میں تقسیم کیا ہےاور اہلِ علم کے نزدیک زمین کے بھی سات تختے ہیں۔ یوں زمین اور آسمان کے تمام طبق مل کر 14 بنتے ہیں، جو انسانی آنکھ سے اوجھل ہیں اور جن کے حالات سے کوئی انسان واقف نہیں۔ اسی لیے جب کسی کے لیے کوئی بات بالکل نئی ہو اور اُسے سن کر اُس کے علم میں اضافہ ہوجائے، تو کہا جاتا ہے، اُس کے 14 طبق روشن ہوگئے۔