کبھی کبھی میں اس بارے میں سوچتا ہوں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے کس عجیب طریقے سے ارتقا کا انکار کیا۔آپس میں انہوں نے مشاورت کی اور یہ کہا کہ ڈارون کے بقول انسان بندر کی اولاد ہے ، ؛لہٰذا مذہبی بنیادوں پر اس نظریے کو مسترد کر دینا چاہیے ۔جب سے ہماری یہ زمین وجود میں آئی اور جب سے زندگی نے اس پر جنم لیا تو میملز‘ پرائمیٹس اور رینگنے والے جانوروں (ریپٹائلز) سمیت پانچ ارب قسم کی مخلوقات نے اس پر زندگی گزاری۔ ان میں سے پرائمیٹس‘ جن میں گوریلا اور چمپینزی وغیرہ شامل تھے‘ ان میں دماغ کا سائز دوسرے میملز کی نسبت بڑا تھا۔کبھی آپ Great Apesکو پڑھیں۔ ان میں آپ کو گوریلا اور چمپینزی سمیت آٹھ ایسے پرائمیٹس ملیں گے‘ جو آج بھی کرہ ارض پہ زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ اس میں ہومو سیپینز ( انسان)بھی شامل ہیں۔Genus ہومو میں ہومو نی اینڈرتھل اور ہومو اریکٹس بھی شامل ہیں‘ جو ہمیشہ کے لیے ختم (Extinct)ہو چکے۔
پچھلے پچاس ہزار سال کی مسلسل تحقیق کے بعد یہ معلومات‘ زیرِ زمین دفن یہ فاسلز انسانوں کو ملے۔پیہم غور و فکر سے کچھ لوگ ڈھانچوں‘ ہڈیوں اور دوسرے اعضا کی ساخت کو سمجھنے لگے‘یعنی کہ علمِ Anatomyکو۔ وہی لوگ اس قابل تھے کہ اناٹومی پر تبصرہ کر سکیں۔جب کہ مسلمانوں نے دوسرے علوم کی طرح اسے بھی نظر انداز کر رکھاہے۔ جو لوگ گاڑیوں کو سمجھتے ہیں‘ انہیں تو اس بات کا علم ہے کہ کسی بھی گاڑی کے ہر پرزے کی ایک مخصوص جگہ ہوتی ہے۔ وہاں ایک خاص سائز کا‘ ایک خاص شکل کا پرزہ ہی نصب ہو سکتاہے۔ اسی طرح جو لوگ اناٹومی کو سمجھتے ہیں‘ انہیں علم ہے کہ جسم میں ہر ہڈی‘ ہر عضو کی ایک مخصوص جگہ ہے۔ وہاں اس کا اپنا عضو ہی پورا آسکتاہے۔ اگر آپ وہاں کسی اور جاندار کا عضو فٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ اناٹومی کے ماہرین کو دھوکہ دینے کی ایک اتنی بچگانہ کوشش ہوگی کہ فوراً پکڑے جائیں گے۔ یہ ایک پزل کی طرح ہے۔ اس پزل میں اگر آپ ایک جگہ کا ٹکڑا کسی دوسری جگہ رکھیں گے‘تو آخر میں تصویر آپ کو چیخ چیخ کر بتائے گی کہ کہاں غلطی ہوئی ۔
انسان کے جسم میں ٹانگ کی ہڈیوں کی ایک مخصوص لمبائی ، موٹائی اورساخت ہے۔ اس میں آپ گوریلا کی ہڈیاں فٹ کرنے کی کوشش کریں گے تووہ کبھی فٹ نہیں آئیں گی۔ جسم میں خاص حجم اور شکل کے خانے (Cavities)ہوتے ہیں‘ جن میں معدہ ،دماغ اور مختلف اعضا کو رکھنے کی جگہ بنی ہوتی ہے۔ ان میں سے کوئی عضو اگر اپنے خانے سے باہر نکلے تو بیماری پیدا ہوتی ہے۔ ایک چھوٹے جانور کی چھوٹی کیوٹی میں بڑے جانور کا بڑا عضو نہیں سما سکتا۔
پھر یہ کوئی صرف ہڈیوں یا اعضا کی بات نہیں۔ اللہ نے انسان کو دیکھنے‘ جائزہ لینے اور ہر چیز کا نام رکھنے کی صلاحیت دی ہے۔ ہمیں آج تک جتنے بھی سیارے نظر آئے ہیں‘ ہم نے ان کے نام رکھے ہیں۔ ہر ستارے کا نام رکھا ہے۔ ہمارے پاس اگر خلا میں دیکھنے والی دوربینیں ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس خلیات کے اند ر دیکھنے والی خوردبینیں بھی ہیں۔ انسان مختلف بیکٹیریا کی شکلیں جانتا ہے۔ انسان اپنی جلد کے خلیات پہچانتا ہے۔ جلد کے اندر موجود ایک خلیے کے اندر موجود ڈی این اے کو بھی ڈی کوڈ کر لیا گیا ہے۔ اس دوران جتنے بھی جینز دریافت ہوئے‘ ان میں سے ایک ایک کا نام رکھا گیا۔
سائنسدانوں نے یہ جینز دنیا کے سامنے پیش کیے۔ بڑے سائنسی اداروں نے ان کا جائزہ لے کر درست دریافتیں کرنے والوں کو سراہا‘ انہیں انعامات اور میڈل جاری کیے اور خیالی دعوے کرنے والوں کو لات مار کے سائنسی برادری سے نکال باہر کیا۔ ان جینز میں معلومات درج ہوتی ہیں۔ان پر سائنسی تجربات ہوتے ہیں۔ان خلیات کا‘ ان کے اندر موجود ڈی این اے کو ڈی کوڈ کرنے کا کام دنیا کی مختلف لیبارٹریز میں کیا گیا۔ ان میں دنیا جہان کے اعلیٰ ترین کمپیوٹرز اور آلات استعمال کیے گئے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ سائنس کی ایک مجبوری ہوتی ہے کہ وہ سچ کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتی۔ سچ بھی وہ‘ جسے آپ لیبارٹری میں ثابت کر سکیں‘ورنہ حریف سائنسی اداروں کو یہ موقع مل جاتاہے کہ وہ آپ کی بے عزتی کر سکیں۔ اسی طرح یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیامیں کسی بھی علم کے جو ماہرین (Experts) ہوتے ہیں‘ وہ ایک دوسرے کو بخوبی پہنچانتے ہیں۔ ایک سرجن دوسرے سرجن کو جانتاہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ اسی طرح ایک جنرل دوسرے جنرل کو جانتا ہے کہ وہ جنگ لڑنے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ اسی طرح ہر سائنسدان دوسرے کو جانتاہے۔ آپ خود کو چھپا نہیں سکتے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ شگوفے چھوڑتے چھوڑتے ایک دن اچانک ایٹم بم ایجاد کر لیں۔ آپ کو ریسرچ آرٹیکلز لکھنا ہوتے ہیں۔ دنیا ان کو پڑھتی ہے۔ پڑھتی بھی اسی صورت میں ہے کہ جب وہ شائع ہونے کے قابل ہوں۔ یہ کالم نگاری نہیں ۔
پچاس ہزار سال تک کی انسانی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ ہو مو نی اینڈرتھل کو ہومو سیپئنز (انسانوں) نے دریافت کیا۔ ان کے جینز ڈی کوڈ کیے۔ اس ادارے نے جس میں دنیا بھر سے دس ہزار سائنسدان کام کرتے ہیں‘ جن کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے اور بے شمار ملحد ہیں۔ ا ن کے نزدیک اہمیت صرف اس سچ کی ہے، جسے لیبارٹری میں ثابت کیا جا سکے۔ادھر ہمارے دانشور فرماتے ہیں کہ نی اینڈرتھل کوئی وجود نہیں رکھتے۔ اصل میں ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ نی اینڈرتھل کو مانا تو آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے والی داستان میں کوئی فرق پیدا ہو جائے گا؛حالانکہ ایسا نہیں۔ صرف ہومو سیپینز ہی ہیں‘ جن پہ شریعت نازل ہوئی‘ نبوت نازل ہوئی‘ جنہوں نے ایجادات کیں‘ لباس پہنااور مردے دفنائے۔ باقی سب خاموش تماشائی ہیں۔