• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایوان صدر کا ــ ’’مکین‘‘ اور آئینی بحران

10اپریل 1973ء کو پارلیمنٹ نے موجودہ آئین کی منظوری دی جس کی صدر مملکت نے12اپریل 1973ء کو توثیق کی 280آرٹیکلز پر مشتمل دستور کو1973ء کے آئین کی شہرت حاصل ہوئی، جو نصف صدی سے کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے آئین جہاں ریاست کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دیتا ہے وہاں اس کی چاروں اکائیوں کو متحد رکھنے کا ضامن بھی ہے، آئین میں عام آدمی سے لے کر صدر مملکت تک کے اختیارات و فرائض کا تعین کر دیا گیا ہے، کئی آمروں نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا لیکن یہ دستاویز نصف صدی سے قائم دائم ہے۔ آئین میں 18ویں ترمیم کر کے جہاں اسے اپنی شکل میں بحال کر دیا گیا ہے وہاں بڑی حد تک صوبائی خود مختاری کا مسئلہ بھی حل کر دیا گیا ہے، اگرچہ اس آئین میں صدر مملکت کی حیثیت علامتی سی ہو گئی ہے تاہم اسے ریاستی اداروں پر بالا دستی حاصل ہے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے لیکن بل کی منظوری کے لئے صدر کی توثیق لازمی ہے، بل کی توثیق یا اسے مسترد کرنے کے بارے میں صدر کے اختیارات محدود کر دئیے گئے ہیں اور صدر مملکت کو کچھ قواعد و ضوابط کا پابند بنا دیا گیا ہے، پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کی توثیق کے حواالے سے ’’بازار سیاست‘‘ میں گرما گرمی ہے دو متنازع بلوں کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد صدر مملکت کی جانب سے توثیق کے عمل سے لاتعلقی کے اعلان سے آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے، انہوں نے ایک سانس میں کہا ہے کہ ’’میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں کہ میں نےپاکستان آرمی ترمیمی بل2023ء اور آفیشل سیکرٹ بل2023ء پر دستخط نہیں کئے‘‘ دوسری سانس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’چونکہ دونوں بل قانون بن چکے ہیں لہٰذا میں ان تمام لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو ان بلوں سے متاثر ہوں گے‘‘۔ صدر مملکت کی جانب سے بلوں کو ایکٹ کا درجہ دئیے جانے کے 27گھنٹے بعد ٹویٹ پر بلوں پر دستخط نہ کرنے کے اعلان نے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی۔ آئینی ماہرین اور ’’سیاسی تماش بین‘‘ آئین کے آرٹیکل 75کی اپنی اپنی پسند کی تشریح کر رہے ہیں 1973ء میں جب آئین منظور ہوا تو اس وقت ہی آئین کے آرٹیکل 75کے تحت قانون سازی کے حوالے سے صدر کے اختیارات کا تعین کر دیا گیا تھا 50سال گزرنے کے باوجود صدر مملکت کے

اختیارات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی صرف صدر کی جانب سے بل کو منظور یا مسترد کرنے کے ایام میں کمی بیشی کی گئی۔ آئین 1973ء میں آرٹیکل75کے تحت 7 دن میں صدر کو بل منظور یا مسترد کرنے کا پابند بنایا گیا ہے اگر صدر 10 دن کے اندر بل منظور یا مسترد نہ کرے تو یہ بل از خو قانون کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، ضیاء الحق کے دور میں بل منظور کرنے کی مدت45 دن کر دی گئی تھی جب کہ 8ویں ترمیم میں یہ مدت 30دن کر دی گئی 18ویں ترمیم کے تحت بڑی حد تک آئین اصلی حالت میں بحال کر دیا گیا، بل منظور کرنے کی مدت 10دن کر دی گئی بظاہر 10روز کی مدت ختم ہونے کے بعد بل کے از خود قانون بننے کے بارے میں آئین خاموش ہے لیکن اس عرصہ میں صدر کی خاموشی کو ہی اس کی منشا قرار دیا جا تا ہے۔ 10روز تک صدر کاپر اسرار خاموشی کے بعد ٹویٹ کرنا بعد از وقت سوچ ہے یا پھر وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کا شاخسانہ۔ صدر مملکت کا یہ کہنا بے معنی ہے کہ انہوں نے دونوں بلوں پر دستخط نہیں کئے اگر دستخط نہیں کئے تو پھر ان کو اپنے ریمارکس کے ساتھ واپس کیوں نہیں بھجوایا؟ وزارتِ قانون و انصاف کا موقف ہے کہ صدر مملکت نے10ایام کی آئینی مدت میں کوئی راستہ اختیار نہیں کیا اب دونوں بل قانون کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ صدر مملکت کے پاس بل کو منظور کرنے کا اختیار ہے یاوہ اپنی آبزرویشن کے ساتھ بل واپس پارلیمنٹ کو بھجوا سکتے ہیں صدر مملکت کے پاس تیسرا آپشن نہیں ہے صدر10روز میں بل کی منظوری نہ دیں تو بل خود بخود قانون بن جاتا ہے18 اگست2023 ء کو پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2023ء اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ2023ء کے بارے گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت پہلی خصوصی عدالت بھی قائم ہو گئی ہے جس میں شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی ’’ان کیمرہ‘‘ سماعت بھی شروع ہو گئی ہے، تاحال صدر اس بات پر مصر ہیں کہ انہوں نے سٹاف کو بل پر دستخط کئے بغیر واپس بھجوانے کی ہدایت کی ہے میں نے عملے سے بار بار تصدیق بھی کی مجھے بتایا گیا کہ بل بغیر دستخط واپس بھجوا دئیے گئے ہیں، مجھے آج معلوم ہوا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر صدر سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تو وہ پھر معافی کیوں مانگ رہے ہیں، حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے صدر نے دانستہ ان دونوں بلوں کی فائلیں اپنے پاس رکھ کر 10روز کی مدت ختم ہونے کا موقع فراہم کیا، ایک طرف اپنے پاس بل رکھ کر ان کی منظوری کی راہ ہموار کی دوسری طرف دستخط نہ کرنے کا بہانہ بنا کر اپنی قیادت کے سامنے سرخرو ہونے کا پرچار کر رہے ہیں۔ صدر نے بل واپس نہ بھیجنے کا سارا ملبہ اپنے عملہ پر ڈال دیا حالانکہ وہ پریس ریلیز کے ذریعے بھی اپنا موقف پیش کر سکتے تھے۔ پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2023یکم اگست کو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ایوان صدر بھجوایا گیا جو ایوان صدر کو 2اگست2023ء موصول ہو گیا اسی طرح پارلیمنٹ نے 8اگست 2023ء کو آفیشل سیکرٹ بل 2023منظور کر کے اسی روز ایوان صدر بھجوا دیا دونوں بلوں پر 10روز کی مدت ختم ہونے پر صدر مملکت کا اعتراض سامنے آیا، گزٹ نوٹیفیکیشن کے مطابق پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023ء 11اگست2023ء اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ2023ء 17اگست سے نافذ العمل ہو گئے ہیں۔ صدر مملکت کے ٹویٹ سے پیدا ہونے والا آئینی بحران شدت اختیار کر گیا ہے صدر مملکت نے بھی اپنے پرنسپل سیکریٹری وقار احمد کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دی ہیں، بات یہیں ختم نہیں ہوئی وقار احمد نے بھی خاموشی توڑ دی اور صدر کے نام ایک خط میں کہا ہے مجھے غلط طور پر سبکدوش کیا گیا ہے صدر مملکت اس معاملہ کی انکوائری کرائیں۔ کسی بے ضابطگی میں ملوث نہیں۔ وقار احمد نے انکشاف کیا کہ ’’صدر مملکت نے بلوں کی توثیق کی اور نہ ہی واپس کئے، یہ بل اس وقت بھی صدارتی چیمبر میں موجود ہیں۔ وقار احمد نے صدر مملکت سے درخواست کی کہ وہ ایف آئی اے یا کسی بھی ایجنسی سے تحقیقات کر سکتے۔ شنید یہ بھی ہے کہ صدر نے وقار احمد کو خاموش رہنے کی صورت میں مستقبل قریب میں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرنے کی بھی پیشکش کی ہے جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔ ایوان صدرکے ’’مکین‘‘ اور پارلیمنٹ کے درمیان جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا تصور کر کے ہی پریشانی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین