• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والد کی جانب سے انھیں جو ورثے میں ملا وہ تھا بولو کم محنت کرو زیادہ ، پہلی بارمیدان سیاست میں کودے تو پہچان ماسوائے ایک صنعتکارکے کچھ نہ تھی،اس دور کے معروف زمینداروں اورسینئر سرداروں کی اکثریت انھیں سرے سے سیاستدان ماننے کو بھی تیار نہ تھی ، دیکھ کر تقریر کرنیکی وجہ سے ہدف تنقید بنایا گیا لیکن انھوں نے اقتدار کی راہداریوں میں چلنے سے لے کر تخت پر براجمان ہونے کے تک کار سرکار سیکھتے سیکھتے اپنی اہلیت اور اپنی قابلیت کا وہ سکہ جمایا کہ دنیا مان گئی ،سازشوں اورشدید ترین مخالفتوں کے باوجود حکومت میں رہتے ہوئے کارکردگی دکھانا مقصدبنا لیا،وزیر خزانہ سے وزیر اعلیٰ بننے تک کے پرخطر سفرپر کامیابی کے جھنڈے گاڑے، انکے کئی کم ہمت والےہمراہی تو کب کے سیاست کو خیر باد کہہ چکے ہیں، مزاج ہی ایسا تھا تھا کہ چاہے معمولی ہو یا بڑی وزارت،ہرجگہ اپنے لئے مشکل اہداف مقرر کرکے مقررہ مدت میں ان کی کامیاب تکمیل کی،سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مقرر کردہ اہدف کی تکمیل کا مکمل فالو اپ رکھا کرتے تھے، وہ خوامخواہ بولنے بے مقصد اور چرب زبانی سے پرہیز کیا کرتے تھے اسلئے زیادہ تر لکھی ہوئی متوازن تقریر کیاکرتے ، تقریر کے مواد کے مصدقہ اعدادوشمار کی حقیقت سے خوب آگاہی رکھتے تھے،صبح سویرے بیدار ہونے اور نمازعشاء پڑھنے کے بعد سو جانے کی عادت نے اہداف کی تکمیل میں بہت اہم کردار ادا کیا، مخالفین نے پروپیگنڈا کیا کہ وہ اپنی ذات میںرہتے تھے،جبکہ اس کے قریبی ملازمین تک کا کہنا ہے کہ وہ تو ہمیشہ ہمیں بھی آپ کہہ کر مخاطب کیا کرتے،ہماری عزت نفس کو برقرار رکھنے کی ہمیشہ کوشش کیا کرتے، ناپسندیدگی پر کسی افسر کو ہٹانے میں بھی اعلیٰ ظرفی اور اعلیٰ اقدار کا مظاہرہ کیا کرتے تھے،جب موٹر وے بنانے کے عظیم منصوبے کا بلیو پرنٹ سامنے آیا تواس پہاڑ جیسے پروجیکٹ کو ممکن بنانے کیلئے دن رات ایک کردیئے،جدید ترین نادرا،ایٹمی پاکستان، گوادر پورٹ سمیت ہر عظیم منصوبے کی بنیادوں میں ان ہی کی ہمتوں کے نشان ملیں گے، قوم کو یاد ہےجب امریکہ نے ایف سولہ اور پرزے دینے سے انکار کیا تو امریکہ سے خوامخواہ جھگڑا مول نہیں لیا اسکی بجائے یہ زیرک شخص موت سے بے خوف ہوکر طیارے بنانے کی فیکٹری ہی چین سےلےلایا،ایب سو لیوٹلی ناٹ کا پروپیگنڈہ کرنیوالوں کیلئے عرض ہے کہ ایٹمی دھماکوں سے لے کر طیارہ ساز فیکٹری بنانے تک وہ واحد پاکستانی رہنما تھے جس نے بغیر کو ئی لفظ بولے حقیقی طور پر غیر ملکی طاقتوں کو ایب سو لیوٹلی ناٹ بول ڈالا ، بہادری اتنی تھی کہ سینے کی جانب اٹھی بندوق کے باوجود مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اوور مائی ڈیڈ باڈی ، عدالتوں میں سینکڑوں بار پیشی کے باوجود استثنیٰ نہیں مانگا، جیلیں کاٹیں تو کبھی آنسو نے بہائے، نا انصافیوں کا سامنا کیا لیکن سر نہیں جھکایا،جلاوطنیاں کاٹیں لیکن عزت نفس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا، حوصلہ اتنا تھا کہ بیٹی کی گرفتاری کی شدید ترین ذہنی اذیت کا سامنا کرلیا لیکن کسی کے پائوں نہیں پڑا ،بطور وزیر اعظم اپنی تنخواہ ہمیشہ اسپتال کو عطیہ کی ، مشرف اورعمران خان کے مسلط کردہ کڑے احتساب میں بھی اس پر کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا ،اس کے خلاف ہر قسم کے منفی ہتھکنڈے استعمال کئے گئے لیکن وہ مزید مضبوط ہوتا گیا،اسے وزرات عظمیٰ سے ہٹا کر نیا سیاسی تجربہ کیا گیا ، سوشل میڈیا بریگیڈ تیار کرکے اس کیخلاف پرو پیگنڈہ کا سونامی برپا کیا گیا،لیکن وہ بھول گئے تھے کہ مکافا ت عمل بہت آہستہ آہستہ ہوتاہے لیکن اتنی باریکی سے ہوتا ہے کہ سب کچھ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے،ان کے تین ادوار وزارت عظمیٰ کے ترقیاتی کاموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر انھیں نکال دیا جائےتو ملک میں شالامار باغ، شاہی قلعہ ،ہرن مینار،بادشاہی مسجد اورشیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک ہی باقی رہ جا ئیگی ، عوام جان چکے ہیں کہ ملک کی خدمت کرنے والے اور وطن مخالف پروپیگنڈہ کرنے والوں میں کیا فرق ہوتا ہے خدمت کرنے والے اور ان میں بس اتنا ہی فرق ہوتا ہے کہ جب بھی مقابلے کا موقع آتا ہے تو یہ فارم کرتا ہے جبکہ مخالفین ہمت ہار جارتے ہیں،آج عوام برملا سوال کرر ہے ہیں کہ کب تک ہمارے ملک میں سیاسی تجربات جاری رہیں گے؟ سنجیدہ محب وطنوں کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ پاکستان کا مشن اس وقت پورا ہوگا جب سب ادارے مقررہ دائرے میں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کریں گے، آخر میں ایک اہم بات، ہم نہ جانے کس قدراحساس کمتری میں مبتلا قوم ہیں، ہر گورے فرد کو انگریزی زبان بولتے سن کر قابلیت کے کوہ ہمالیہ پر فائز کرکے مشہور کردیتے ہیں کہ وہ بہت ہی قابل اور اہل ہے، ویسے ایک بات عرض کروں برطانیہ میں عام سے عام فرد فرفرانگریزی بولتا ہے تو کیا ان کو بھی برطانیہ کا وزیر اعظم بنایاجا سکتا ہے؟

تازہ ترین