• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

یومِ حجاب... تاکیدِ حجاب، تائیدِ حجاب، تجدید حجاب

تحریر: فرحی نعیم 

مہمان: علیزہ انصاری 

عبایا، اسکارفس: قواریر فیشن، رہام قاضی 

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون 

عکّاسی: عرفان نجمی 

لےآؤٹ: نوید رشید 

’’آپ کی حیا، آپ کو کسی کے قریب جانےنہیں دیتی، اور آپ کا حجاب کسی کو آپ کے نزدیک آنے نہیں دیتا۔‘‘ یہ خُوب صُورت جملہ، ایک مکمل رہنما اصول ہے، جو ایک حیا دار خاتون سے لےکرایک باوقارمعاشرے کی بُنت و تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے کہ مسلم معاشرے کی بنیاد اورشناخت صرف عورت کے حجاب ہی سے مشروط نہیں، مَردوں کے لیے بھی کئی حدودوقیود مقرّر کی گئی ہیں بلکہ دینِ اسلام کے تحت تشکیل پانے والے معاشرتی و سماجی نظام میں تو ہر اِک فرد ہی کےلیے، پاکیزہ فطرت رنگوں سے رنگا ہونا لازم ٹھہرا۔ اگر عورت کے سَر پرحجاب کا تاج سجا ہونا ضروری ہے، تو مرد کی آنکھ میں بھی شرم و حیا کے موتی پروئے رہنے چاہئیں۔ 

نوجوانوں کی سوچ صاف سُتھری ہو، تو بچّے، بچیوں کا خمیر بھی پاکیزہ کردار و اعمال اورصالح اخلاقی اقدارسے گندھا ہوا ہو۔ اور یہ سب تب ہی ممکن ہے، جب آپ دل سے اپنےمعاشرے کی خامیوں، خرابیوں کو محسوس کرکے، اُن کے اسباب تلاش کریں اور تدارک کی سعی و کوشش کریں۔ آج جب کہ ’’یومِ حجاب‘‘ سے متعلق ایک عام سوچ اورتصوّر یہی پروان چڑھ چُکا ہے کہ اِس کا تعلق صرف خواتین کے حجاب، پردے سے ہے اور اُس میں بھی سرِفہرست صرف سر کو ڈھانپنا ہے(مانا کہ یہ عمل لائقِ تحسین اوراطاعتِ خداوندی ہے) لیکن بہرحال، ہمیں اپنے خیالات و نظریات کو کچھ وسیع کرناہوگا۔ ہمیں اس ’’حیا وحجاب‘‘ کا اطلاق معاشرے کے ہر شعبے اور ہر دائرۂ عمل تک کرنا ہوگا، خواہ وہ ہمارا تعلیمی نظام ہو، معاشی و معاشرتی سسٹم یا عدلیہ، مقنّنہ اوردیگر ادارے، قلب وذہن، نظروبصر، شخصیت کا ظاہر و باطن حیا کے نُورسے منوّر ہوگا، تو ہی بات بنے گی۔

ایک ایسا معاشرہ، جہاں اللہ کا خوف، لوگوں کے ڈر پر فوقیت رکھے، جہاں غلط و صحیح، نیک و بَد میں فرق واضح ہو، جہاں اللہ کی نافرمانی کا ڈر و خوف ہر ڈر پر غالب ہو، بھلا وہ معاشرہ کیوں حیا دار اور پاکیزہ نہ ہوگا؟بس، دماغ میں آئی فکرسے طرزِعمل تک ہم نے ہر ہر درجے پر اپنی حیا کو سنبھال رکھنا ہے کہ ہماری شناخت، پہچان، قدر و قیمت اِسی ایک وصف میں پوشیدہ ہے۔ اگر ہم ہرسطح پر اس کی حفاظت کرنے میں کام یاب رہے، تو ان شاءاللہ تعالیٰ سماج کی واضح اکثریت اس خُوبی کی پیرو بن جائے گی اور یہی ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد میں پہلی اینٹ ثابت ہوگی۔

بحیثیت مسلمان، ہماری زندگی کا ہر وہ پہلو تشنہ ہے، جس میں اللہ کا رنگ نہ ہو۔ اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ’’میرارنگ اختیار کرو۔‘‘ یعنی وہ رنگ، جو نہ کچّا ہے، نہ پھیکا، نہ عارضی اور نہ کم زور، بلکہ یہ تو وہ رنگ ہے کہ اگر زندگی پر چڑھ جائے، تو قوسِ قزح بن کرچھا جاتا ہے۔ یہ دائمی و ابدی رنگ ہے، جس میں پائیداری بھی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کسی بھی انسان کی پوری حیاتی سنوارنے کی طاقت رکھتا ہے۔ 

یاد رکھیں، اللہ کے نظامِ حیات کا کوئی پہلو تشنہ نہیں، اِس کے تحت ہر ایک کو مکمل زندگی بسرکرنے کے تمام اصول و ضوابط مہیا کردیئے گئے ہیں۔ اور یہ دینِ اسلام ہی کا امتیاز ہے کہ اُس نے ایک مسلمان عورت کو اپنے آپ کومحفوظ و مامون رکھنے کی تمام حدود سے آگاہ کردیا۔ مثلاً اُس کا لباس ایسا ہو، جو درجنوں خواتین کے درمیان اُسے ممیّز کر دے، جو اُس کو ایسا ممتاز کردے، جیسے چاند، ستاروں کےجلومیں اپنی علیحدہ ہی پہچان کرواتا ہے۔ 

ایک مسلمان عورت کا ساتر لباس اور اُس کے سر پر حجاب کی صُورت سجا ’’تاج‘‘ وہ اَن مول تحفہ ہے، جو اُسے ربِ کعبہ نے ودیعت کیا، لیکن ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی کہ اپنے ہر ہرعمل کے ذریعے اِس کی حفاظت کرنی ہے۔ دراصل یہ ایک علامت ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر دائرۂ عمل میں اللہ کی اطاعت وفرماں برداری لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری جسمانی پوشاک و خوراک ہی نہیں بلکہ ذہنی و روحانی تربیت، ہرایک حرکت، اِک اِک خیال، ہمارے مالک کےاحکامات کے تابع ہےاور بے شک وہ ہمارے ہراِک عمل کا نگہ بان و نگران ہے۔

قصّہ مختصر، ہر’’یومِ حجاب‘‘ درحقیقت تاکیدِ حجاب، تائیدِحجاب، تجدیدِ حجاب اورتلقینِ حجاب کا دن ہے۔ اوراِس کے اہتمام و احترام میں محض سَر لپیٹ لیناہی کافی نہیں،اپنے روّیوں، خیالات و نظریات کو بھی اسلامی شعائرواصول و ضوابط سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ بہرحال، ہماری یہ ’’عالمی یومِ حجاب اسپیشل بزم‘‘ بھی اِسی ضمن میں ایک چھوٹی سی کاوش اور یاد دہانی ہے۔ اُمید ہے، ہرایک ہی کے دل کو خُوب بھائے گی۔