• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قدرت نے ایک عجیب و غریب مخلوق زمین پر اتاری ہے۔ اسے عرفِ عام میں ٹیکسی ڈرائیور کہتے ہیں۔ کہیں بلا کا ذہین، کہیں زمانے کا نبض شناس، کبھی احساسِ کمتری کا ستایا ہوا کبھی مجرموں کے نشانے پر اور کہیں خود بھی جرائم پیشہ۔ ذہانت کا تو یہ حال ہے کہ پچھلے دنوں میں کراچی میں تھا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر ہوائی اڈّے جارہا تھا۔ جیسا کہ ہوتا چلا آیا ہے، ڈرایئور سے باتیں ہونے لگیں۔ میں نے پوچھا کہ پاکستان کے حالات کو ایک جملے میں کیسے بیان کرو گے۔جواب سادہ مگر کھرا تھا۔ بولا’’لوگ کہتے ہیں کہ اس ملک کے حکام کرپٹ ہوگئے ہیں، میں کہتا ہوں کہ ملک کے عوام کرپٹ ہو چکے ہیں‘‘۔ معمولی پڑھے لکھے ٹیکسی ڈرائیور کی بات سن کر مجھے ملک معراج خالد جیسے باشعور سیاست دان یاد آ گئے جنہیں ایک بار پاکستان کا نگراں وزیراعظم بنایا گیا۔تقرر کے پورے ایک مہینے بعد انہوں نے ریڈیو پر تقریر کی جس کا ایک جملہ مجھے آج تک یاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ پوری قوم ہی کرپٹ ہے۔تمام بُری خصلتوں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے۔ وہ پھیلتے پھیلتے روزمرہ کا معمول بن جاتی ہیں۔ قانون کے ماہرین میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جب تمام خلقت کسی قانون کو توڑنے لگے تو وہ قانون خود بخود کالعدم ہو جاتا ہے۔ اس پر مجھے وہ ٹیکسی ڈرائیور یاد آتا ہے جو مجھے قلعہ رہتاس لے گیا تھا۔ کہنے لگا کہ میرا زندگی میں ایک بار بھی چالان نہیں ہوا ہے حالانکہ میرے پاس کار کے مکمل کاغذات بھی نہیں ہیں۔ میں نے اس سے وہی بات پوچھی جو میری جگہ کوئی بھی ہوتا ، ضرور پوچھتا ’’کیسے؟‘‘ کہنے لگا کہ میرے پاس یہ نوٹ بُک سی ہے۔ اس کے اندر ہر وقت ایک نوٹ رکھا رہتا ہے۔ جب کبھی پولیس والے مجھے روک کر کہتے ہیں کہ اپنے کاغذات دکھاؤ، میں انہیں یہ نوٹ بُک دکھا دیتا ہوں۔ نوٹ وہ رکھ لیتے ہیں، بُک مجھے لوٹا دیتے ہیں۔ میں کبھی کبھی خود کو ٹیکسی ڈرائیور کی جگہ رکھ کر دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ دن بھر کیسے کیسے لوگ اس کی گاڑی میں بیٹھتے ہوں گے، راستے بھر یا تو اس سے یا آپس میں کیسی کیسی باتیں کرتے ہوں گے، حالات پر بات ہوتی ہوگی، دنیا کے معاملات زیرِ بحث آتے ہوں گے۔ کبھی کبھی ڈرائیور بھی اس مکالمے میں شامل ہو جاتا ہوگا۔ بعض اوقات وہ بالکل خاموش رہ کر مسافروں کی گفتگو سنتا ہوگا اور دل ہی دل میں اس گفتگو کا تجزیہ کرتا جاتا ہوگا، اندر ہی اندر اتفاق یا اختلاف کرتا ہوگا، مسافر کو دیوانہ قرار دیتا ہوگا یا اس کو داد دیتا ہوگا اور مدّاح ہو جاتا ہو گا اور اس طرح اچھا بھلا دانشور ہو جاتا ہوگا۔ مجھے یاد ہے برطانوی ٹیلی وژن پر ذہانت کی آزمائش کے ایک پروگرام میں لندن کا ایک ٹیکسی ڈرائیور کامیاب قرار پایا تھا۔ وہ اس بلا کا ذہین تھا کہ بعد میں اسی ٹیلیوژن کا اینکر پرسن بن گیا اور عرصے تک مختلف پروگرام پیش کرتا رہا۔ یوں بھی لندن کا ٹیکسی ڈرائیور کوئی گرا پڑا آدمی نہیں ہوتا۔ اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتا ہے، شان سے رہتا ہے اور معاشرے میں عزّت سے جیتا ہے۔
اس پر مجھے وہ زمانہ یاد آیا جب پاکستان نے کوریا سے ہزاروں پیلی ٹیکسیاں درآمد کی تھیں۔ خیال یہ تھا کہ پڑھے لکھے لوگ انہیں چلائیں گے اور عزت کی روٹی کمائیں گے۔ اس پر ایسی لعن طعن ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ ہر طرف سے شور اٹھا کہ اب ہمارے گریجوٹ ٹیکسیاں چلائیں گے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پیلی ٹیکسیاں ایک ایک کرکے شہر کابل چلی گئیں جہاں آج تک کہتے ہیں کہ افغان کا ڈر ہے۔ ویسے سچ پوچھئے تو عزت والی بات کچھ اتنی غلط بھی نہیں۔ میں برطانیہ میں رہتا ہوں یہاں جن شہروں یا علاقوں میں پاکستانیوں کی کثرت ہے وہاں قریب قریب سارے ٹیکسی ڈرائیور پاکستانی مسلمان ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں ہیں؟ جواب یہ ہے کہ جو پڑھے لکھے نہ ہوں، کسی دوسرے کام کے اہل نہ ہوں، ان کیلئے سب سے موزوں اور مناسب پیشہ ٹیکسی ڈرائیوری ہے۔ ڈرایئور کی سیٹ پر بیٹھنے والے شخص کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ بھانت بھانت کے لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھاتا ہے، ان میں غنڈے ، بدمعاش، آوارہ ، بدچلن اور سب سے بڑھ کے شرابی بھی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ڈرائیور کو ویرانوں میں لے جاکر ان کے ساتھ غنڈوں بدمعاشوں والا ہی سلوک کرتے ہیں، لوٹتے ہیں اور قتل بھی کرتے ہیں۔ اس طرح کی وارداتیں اتنی بڑھیں کہ اگلی اور پچھلی نشست کے درمیان وہ موٹا سا شیشہ لگایا گیا جس پر گولی اثر نہیں کرتی۔ کچھ بھی ہو ، یہ ڈرائیور راتوں کے گھنے اندھیروں میں ہر علاقے میں جاتے ہیں، نہ جائیں تو کھائیں گے کیا۔
ٹیکسی ڈرائیوروں کی بے مثال دیانت داری کے قصّے ہم اکثر سنتے ہیں۔ میں ایک بار لاہور کے ریلوے اسٹیشن سے ٹیکسی میں بیٹھ کر شہر جا رہا تھا۔ ڈرائیور نے مجھے اپنا ایک واقعہ سنایا۔ ایک رات اسٹیشن سے ایک کنبہ اس کی گاڑی میں بیٹھا۔ یہ لوگ جس جگہ جا رہے تھے وہاں شادی کی تقریب تھی۔ راستے میں خواتین شادی کے گانے گاتی ہوئی گئیں اور اپنی منزل پر اتر گئیں۔ ڈرائیور نے بتایا کہ واپسی پر اسے محسوس ہوا کہ وہ لوگ ایک پوٹلی گاڑی میں چھوڑ گئے ہیں۔ اس نے دیکھا تو پوٹلی میں سونے کے زیور بھرے ہوئے نظر آئے۔ اب وہ واپس چلا اور جب شادی والے مکان پر پہنچا تو وہاں کہرام برپا تھا۔ عورتیں تو اپنے بال نوچ رہی تھیں۔ جوں ہی ڈرائیور نے وہاں پہنچ کر وہ پوٹلی ان لوگوں کے حوالے کی، مارے خوشی کے خواتین کی چیخیں نکل گئیں۔ بڑی بوڑھیاں ڈرائیور کا ماتھا چومنے لگیں،گھر والے اس کے لئے نقد انعام لے کر آئے جو اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ مجھے جو دعائیں دی گئی ہیں وہ میرے لئے کافی ہیں۔
اب اس معاملے کا تاریک پہلو۔ نہیں معلوم اس میں کیا راز پنہاں ہیں، کیا انسان خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔ نہ جانے کیا ہوتا ہے کہ وہ مجرم ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں برطانیہ کے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورں نے بڑی بدنامی مول لی ہے۔ یہ روز کا قصہ ہے، کوئی نہ کوئی جرائم کی ایسی خبر چھپتی ہے جس میں یہ ٹیکسی ڈرائیور ملوث ہوتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب پاکستانی ڈرائیوروں کے ایک گروہ کو سزا ہوئی۔ وہ نو عمر انگریز لڑکیوں سے دوستی کر کے اور انہیں کھانے پر لے جاکر اور تحفے تحائف دے کر اپنی راہ پر لگاتے تھے اور انہیں بدچلن بنا دیتے تھے۔ یہ لوگ ان نوجون لڑکیوں پرخود بھی مجرمانہ حملے کرتے تھے اور ان سے پیشہ کراتے تھے۔ عدالت میں جرح ان ٹیکسی ڈرائیوروں پر ہوتی تھی، گردنیں ہماری جھکا کرتی تھیں۔ شکر ہے سب جیل گئے پھر یہ تازہ واقعہ ہوا ۔ ایک پاکستانی ڈرائیور کو سزائے قید ہوئی ہے اور اس کی بیوی کو معطل سزا سنائی گئی ہے یعنی وہ جیل تو نہیں گئی لیکن عمر بھر کے لئے مجرم قرار دے دی گئی ہے۔ وہ حسینہ انٹرنیٹ پر لوگوں سے دوستیاں کرتی تھی اور ان کو شادی کا جھانسہ دے کر ان سے رقم اینٹھتی تھی اور قیمتی تحائف لیتی تھی۔ اس کام میں شوہرِ نامدار برابر کے شریک ہوتے تھے ،دام میں آجانے والوں کو اچھی طرح لوٹتے تھے اور ضرورت پڑنے پر قتل و غارت گری کی دھمکیاں بھی دے دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں پاکستان میں بیس قتل کر چکا ہوں۔ پہلے پہل دونوں نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ وہ بے قصور ہیں، بعد میں مانا کہ ہم سدا کے مجرم ہیں اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں۔ شاید عدالت کو یہ ادا بھا گئی ورنہ زوجہ بھی آج جیل میں سڑ رہی ہوتیں۔کچھ بھی ہو، ہم اتنا ضرور جان گئے کہ اس سارے قصّے میں ٹیکسی کون ہے اور ڈرائیورکون۔
تازہ ترین