ایسا لگتا ہے کہ زندگی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود لوگ اُن زنجیروں سے مفاہمت کرچکے ہیں جو ان کی نقل و حرکت کو محدود اوراظہارِ رائے کومسدود کرتی ہیں۔ کہنے دیجیے کہ وہ اپنی اسیری کے اتنے خوگر ہیں کہ انھوں نے آزادی کا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔سب سے بڑھ کر وہ اپنی زندگی اور مقصد کے تقدس کو پامال ہونے کے باوجود ضمیر کے اسیر ہو چکے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ استحصالی قوتوں کے ہاتھوں غلامی اور بڑھتی ہوئی کمزوری کے گڑھے میں مزیدگرتے چلے جا رہے ہیں ۔ ان کیلئے آزادی ایک دھندلا خواب بنتی جارہی ہے۔ گویا وہ اس زندگی کواپنا مقدر سمجھتے ہیں اور اس پر راضی ہیں۔ اس کے نتیجے میں رجعت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے ہیں، لیکن کسی بھی چیز نے ان کے ذہنوں میں ہل چل نہیں مچائی کیوں کہ اُن کے ذہن دہائیوں کے مصا ئب کی وجہ سے ساکت و جامد ہوچکے ہیں۔ یہ دھیرے دھیرے ایک قومی مظہر بن گیا ہے جو ہماری زندگیوں اور جینے کی خواہش پر اثر انداز ہوا ہے۔
اخلاقی اور فکری زوال ہولناک منظر پیش کرتا ہے۔ ہمارے پاس موجود ہر اثاثہ معمولی معاوضے پر برائے فروخت ہے۔ سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کیونکہ اقدار کی بجائے سمجھوتے اور مصلحت سے ہی زندگی میں ترقی ملتی ہے ۔ دنیاوی فائدے کیلئے عزتِ نفس پر سمجھوتاکیا جاتا ہے ۔مستقبل کو طاقتوروں کے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ کوئی ذی روح نہیں جس کا ضمیر اسے ٹہوکا دے، کوئی دماغ نہیں جو عقل سے کام کرتا ہو۔لوگ ایسے نظام کے تابع رہے ہیں جو وحشیانہ طاقت سے کام کرتا ہے، اسے کمزوروں کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ ایک عدالتی نظام کے تلے ہیں جو طاقتور حلقوں کا ممنون ، چنانچہ ان کے تابع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ایوانوں سے ایسے فیصلے آتے ہیں جن سے اُن کے آقائوں کی ضروریات کی تکمیل جھلکتی ہے ۔یہ نظام درحقیقت مرکزی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان دولت کی تقسیم سے چلتا ہے ۔ لوٹ مار کا بڑا حصہ تو ان کی اپنی جیبوں میں جاتا ہے لیکن چند لقمے بھوکے افراد کے سامنے بھی اچھال دیے جاتے ہیں جو اپنے اپنے حصے کیلئے لڑنے لگتے ہیں ۔ ان کی محرومی اس قدر ہے کہ اس کے بعد وہ اگلی بانٹ کا انتظار کرنے لگتے ہیں کہ کب کوئی ان کے سامنے لقمہ پھینکے ۔ زندگی نے اُنھیں مفلوک الحالی اور عدم مساوات کا ہی درس دیا ہے ، جو وہ ذہن نشین کرچکے ہیں ۔ لیکن وہ سکوت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ احتجاج کا ایک لفظ بھی سننے میں نہیں آرہا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے سامنے گرنے والے باقی لقمے خراب ہوجائیں۔
یہ ہے وہ طرز عمل جس نے انھیں اس حال تک پہنچایا ہے ۔ ان کے سامنے نہ کوئی مستقبل ہے ، نہ امید ، نہ بہتری کی خواہش، حالانکہ نوجوان کو تو رجائیت پسند ہونا چاہیے ، خاص طور پر وہ نوجوان نسل جو سوشل میڈیا کے اس دور میں پروان چڑھی ہے، جس کے پاس دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے افراد کی زندگیوں کو جاننے اور ان کے ساتھ اپنا موزانہ کرنے کا موقع ہے ۔ حقیقت جاننے کے بعد بھی خاموشی کسی طور فطری آپشن نہیں ۔ درحقیقت بے چینی کی لہریں مرتعش ہونا شروع ہوچکی ہیں ۔ حالت کو بہتر بنانے کی خواہش دل کے دریچوں پر دستک دینے لگی ہے۔
ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ڈھول پیٹتے ہوں گے کہ اسٹیٹس کو برقرار رکھا جائے اور پھوٹ پڑنے کے خطرات کو اجاگر کرتے ہوں گے، لیکن لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اپنی زندگی کے مادے اورماہیت کو تبدیل کرنے کا موقع تلاش کررہی ہے ۔ ہم اس وقت پاکستان کی سڑکوں پر اس رجحان کا ایک چھوٹا سا مظہر دیکھ رہے ہیں جب کہ لوگ بجلی کے بلوں کو جلا رہے ہیں ۔ اور یہ بات قابل فہم ہے کیوں کہ وہ ادا کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ ریلیف کے وعدوں پر بھروسا کرنے کے بجائے اُنھوں نے اپنی غربت زدہ حالت پر احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔ بظاہر پسماندہ عوام کے ساتھ آسانی سے نمٹ لینے والا عادی حکمراں طبقہ بھی چکرا کررہ گیا ہے۔اس صورت حال نے اُسے تدارک کے اقدامات پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے، لیکن مظاہرے ختم ہونے کے بجائے زور پکڑتے جارہے ہیں ۔ یہ بھی واضح ہے کہ حکومت کے پاس مشتعل ہجوم سے نمٹنےکیلئے چند آپشنز ہیں۔ ایک طرف یہ آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے وعدوں کی پابند ہے جو اس کی آپریشنل آزادی کو محدود کرتا ہے، اور دوسری طرف یہ نگراں کی حیثیت کو 90 روز کی آئینی مدت سے آگے بڑھانے کے عزائم رکھتا ہے ۔ دونوں مسائل کا امتزاج ایک بڑے بحران کا باعث بنا ہے جس کا سامنا حکمرانوں کو ہے۔
سب سے بڑھ کر عمران خان کے باہر آنے کا امکان ہے جب کہ منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ وہ طویل عرصے کیلئے اندر رہیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے توشہ خانہ کیس میں سزا کی حالیہ معطلی حکومت کی ممکنہ ناکامیوں کے سلسلے کا آغاز ہو سکتی ہے۔ درخواستیں دائر کی گئی ہیں جس میں آفیشل سیکرٹ بل اور پاکستان آرمی بل کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس پر صدر نے کبھی دستخط نہیں کیے جیسا کہ یہ قانون بننے کیلئےضروری ہیں۔ حلقہ بندیوں سے متعلق سی سی آئی کے فیصلے کے خلاف بھی درخواستیں دائر کی گئی ہیں اور آئینی طور پر مقررہ 90 دن کی مدت میں انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ قانونی برادری نے ایس سی بی اے کی جانب سے سات ستمبر کو اس سلسلے کے پہلے اجتماع کا اعلان کرتے ہوئے ایک احتجاجی تحریک شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔
زندگی کی کمزور سی ہلچل اس پوشیدہ خواہش کو طوفانی بنا سکتی ہے جس کا اظہار الفاظ میں نہیں ہو سکتا – اس کا مطلب زنجیروں اور پابندیوں سے آزاد ہونا ہے جس نے انھیں استحصالی قوتوں اور ان کے شیطانی چالبازوں کا یرغمال بنا رکھا ہے۔ معاشی، سیاسی اور سماجی شعبوں میں مسلسل بگڑتے ہوئے ماحول کے ساتھ شاید وقت آ گیا ہو کہ مضطرب، بلکہ باغی لوگ اپنے ماضی کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے میدان میں آجائیں۔ ان حالات میں روایتی طور پر اتھارٹی رکھنے والوں کے سامنے پرامن انتخابات کا انعقاد ہی واحد آپشن باقی رہ گیا۔