• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملک بھر میں بجلی کے ہوش رُبا ِبلز کے مسئلے پرطوفان برپا ہے۔ہر طبقہ صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ صورتِ حال چند دِنوں میں یہاں تک نہیں پہنچی ہے۔ بلکہ توانائی کے بارے میں حکومتوں کی غلط حکمت عملی اور معاہدے، متبادل اور قابلِ تجدید ذرایع سے ہماری بے رخی، انرجی مکس کی خراب شرح اور اقتصادی بدحالی نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔

دہائیوں کی بدعنوانیوں، بدانتظامی، نا اہلی اور عدم توجہ کی وجہ سے ملک کے اقتصادی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ایک جانب ہمیں قرض دینے والے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے سخت شرائط عاید کررہے ہیں اور دوسری جانب ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمد کی جانے والی ضروری اشیا بیرونِ ملک سے منگوانے کے لیے زرِمبادلہ کی شدید قِلّت ہے۔ ایسی صورت میں توانائی کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا ہے کیوں کہ ملک میں بجلی کی پیدوارا کا بڑا حصّہ درآمدی ایندھن کا مرہونِ مِنّت ہے۔ دوسری جانب ہمارے قدرتی گیس کے ذخائرتیزی سے کم ہورہے ہیں۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہا ۔ آج ہمارا توانائی کا شعبہ پیٹرولیم کی مصنوعات اور مایع گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں اضافے کے باعث شدید مسائل کا شکار ہے۔

بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ماضی میں بھی موجود رہا ہے۔ توانائی کے شعبے کے بنیادی مسائل میں پانی سے بجلی پیدا کرنے پر تھرمل کو ترجیح دینا اور قابل تجدید ذرایع سے بجلی پیدا نہ کرنا، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام و آلات، ترسیل میں بجلی کا بہت زیادہ ضایع ہونا، اس کی کافی چوری اور اس شعبے کے اداروں میں بدعنوانی کی بھرمار شامل ہیں۔ 

توانائی اور خصوصاً بجلی کے شعبے کے لیے بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں کو بھی غیر ذمے داری سے استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود کئی کئی گھنٹے اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔ ہمارا شارٹ فال آٹھ ہزار میگاواٹ تک بھی پہنچ جاتا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے کم استعمال کا سہارا لیا جاتا ہے، کیوں کہ ملک میں بجلی کی ترسیل کا نظام پرانا ہونے کے باعث 22 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی صارفین تک پہنچانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تاخیر سے جاگے

ایسے میں بہت تاخیر سے ہمیں یہ خیال آیا ہے (وہ بھی بہت مجبوری کی حالت میں) کہ توانائی کی بچت بھی کوئی عمل ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیےگیس کے صارفین کو رواں برس کے آخری مہینے تک گیزر میں کونیکل بیفلر نصب کرانے کی مہلت دی گئی ہے۔ اوگرا کے مطابق ملک بھر میں تقریباً تیس لاکھ اٹّھاسی ہزار صارفین گیزر استعمال کرتے ہیں۔ اس کی تنصیب حتمی بنانے کے لیے ایس این جی پی ایل کے اہل کار گھر گھر سروے شروع کریں گے تاکہ گیزر میں مخروطی چکر کی تنصیب کو یقینی بنایا جاسکے۔ اگر کوئی صارف بغیر مخروطی چکر کے گیس سے چلنے والا گیزر استعمال کرتا ہوا پایا گیا تو مذکورہ اہل کار خود اس کے گیزر میں اسے نصب کریں گے اور اس کی لاگت بل کے ذریعے بارہ ماہانہ اقساط میں وصول کی جائے گی۔

اسی طرح سابق حکومت نے ملک میں بجلی کا استعمال کم کرنے کے لیے بعض اقدامات کا اعلان کیا تھا ،لیکن مجموعی طورپر ہم نے اُسے ہوا میں اُڑادیا کیوں کہ اوّل تو من حیث القوم یہ ہمارا مزاج نہیں ،دوم، اس ضمن میں بعض حلقوں کے سیاسی اور کاروباری مفادات آڑے آتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں بازار شب ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تین جنوری کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد چند وفاقی وزرا کے ساتھ مشترکا پریس کانفرنس میں اجلاس کے فیصلوں سے ذرایع ابلاغ کے نمائندوں کو آگاہ کرتے ہوئے اس وقت کے وفاقی وزیر برائے دفاع خواجہ آصف نے بتایا تھا مذکورہ اجلاس میں توانائی پالیسی کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت وفاقی اداروں میں بجلی کے استعمال میں تیس فی صد کمی لائی جائے گی۔ ملک بھر میں آج سے شادی ہالز کو رات دس بجے اور تمام بازاروں کو رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں برس یکم جولائی سے بجلی سے چلنے والے ایسے پنکھوں کی تیّاری پرپابندی ہوگی جو بہت زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اِن ایفی شینٹ پنکھوں پر اضافی ڈیوٹی عاید کی جائے گی۔ اس اقدام سے تقریباپندرہ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ نئے توانائی پروگرام سے ہمیں باسٹھ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ تمام سرکاری ادارے توانائی کے مؤثر آلات خریدیں گے۔ تمام سرکاری دفاتر میں برقی الات کا غیر ضروری استعمال روکا جائے گا۔

انہوں نے یہ بھی بتایاتھا کہ یکم فروری سے عام استعمال والے بلب کی تیّاری پر پابندی عاید کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس سے بائیس ارب روپے کی بچت ہوگی۔ علاوہ ازیں بجلی کےتمام غیر مؤثر آلات پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔ملک بھر میں سالانہ تین ارب ڈالر کا تیل موٹر سائیکل میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ درآمدی تیل کی کھپت کم کرنے کے لیے ملک بھر میں الیکٹرک بائیکس متعارف کرائی جائیں گی۔

بتایا گیا کہ نئی توانائی پالیسی سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے ریڈیو اور ٹی وی پر مہم چلائی جائے گی تاکہ عوام حکومتی فیصلوں سے آگاہ ہوسکیں۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہماری عادات و اطوار باقی دنیا سے مختلف ہیں۔ بازار، ریستوران اور شادی ہالز کے جلد بند ہونے سے قومی خزانے کو باسٹھ ارب روپے کی بچت ہوگی۔

اب ہمیں بدلنا ہوگا

یہ حقیقت ہے کہ مجموعی طور پر ہمیں اپنا طرز زندگی ،رویّے اور کاروبار کا انداز بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، لیکن ہم خود کو بدلنے کے لیے تیّار نظر نہیں آتے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب قومیں طرزِ کُہن پر اڑنے لگتی ہیں تو نظامِ فطرت مختلف عوامل کے ذریعےانہیں خود کو تبدیل کرنے پر مجبور کردیتا ہے، جو اگر چہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے، لیکن کائنات کا نظام چلانے کے لیے ایسا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا وقت کا جبر اب ہمیں بہت کچھ تبدیل کرنے پر مجبور کرچکا ہے۔

اب یہ مثال ہی لے لیں کہ ہم گرمی سے بچنے کے لیے 18ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں جس میں سے صرف پنکھے12ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے زیادہ تر گھروں میں استعمال ہونے والے پنکھے بجلی زیادہ استعمال کرتے ہیں، یعنی وہ اِن ایفی شینٹ ہیں اور120سے130 واٹس تک بجلی استعمال کرتے ہیں۔ حالاں کہ اس وقت بازار میں ایسے پنکھے دست یاب ہیں محض 30تا40 واٹس بجلی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں آج بھی زیادہ تر ایسے پنکھے بنتے ہیں جو بجلی کا زیاں کرتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ پرانے کاروباری رجحانات ہیں۔

اسی طرح آج بھی ملک میں شفاف بلب بن رہے ہیں جن کے بعد بجلی کے بلبز کی کم از کم دو نسلیں بازار میں آچکی ہیں۔ لیکن یہاں اِن کنڈیسنٹ بلب کی تیّاری رواں برس فروری کے مہینے سے روکنے کا سرکاری اعلان کیا گیا ہےجس پر نہ جانے کب تک اور کس حد تک مکمل عمل درآمد ہوسکے گا۔ حکومت کے مطابق اس اقدام سے بائیس ارب روپے کی بچت ہوگی۔

توانائی کے بارے میں پچھلی حکومت نے سرکاری پالیسی کے تحت ملک بھر میں ہاؤسنگ کے شعبے میں بھی توانائی کی بچت کے لیےاصلاحات نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اصلاحات بلڈنگ کوڈ اورہاؤسنگ سوسائٹی کے بائی لاز میں شامل کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں نصب شدہ صرف پچاس فی صد اسٹریٹ لائٹس استعمال کرنے کا اعلان کیا گیا جس سے چار ارب روپے کی بچت ہونے کا تخمینہ لگایاگیا تھا۔ یہ فیصلہ ایسے ملک میں کیا گیا ہے جہاں بعض اوقات اسٹریٹ لائٹس دن میں بھی روشن نظر آتی ہیں۔ لیکن کیا کریں، اب ہمیں وقت کا پہیہ بہت کچھ تبدیل کرنے پر مجبور کررہا ہے۔

ہمارا تیل کا سالانہ درآمدی بِل بیس ارب ڈالرز تک جاپہنچاہے اور ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر سات، آٹھ ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ ہم موسمِ گرما میں 29ہزار میگا واٹ اور موسمِ سرما میں 12ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ گرمیوں میں17ہزار میگا واٹ اضافی استعمال ہونے والی بجلی میں سے 5ہزار میگا واٹ ایئر کنڈیشنر ز کی نذر ہوجاتے ہیں اور 12ہزار میگا واٹ پنکھے پی جاتے ہیں۔ لیکن ہم ماحول دوست گھر بنانے پر توجہ نہیں دیتے جن میں ہر موسم میں بجلی کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قابلِ تجدید ذرایع پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے۔ حالاں کہ قدرت نے ہمیں اس ضمن میں بہت فیّاضی سے نواز رکھا ہے اور دنیا بھر میں اس بارے میں بہت زیادہ کام ہوچکا ہے۔

ملک بھر میں گیس سے چلنے والے تیس لاکھ سے زاید گیزر کا معاملہ بھی دیکھیں۔ ان میں سے زیادہ ترپرانی طرز کے ہیں جو بہت زیادہ گیس استعمال کرتے ہیں۔ ان میں گیس کا استعمال کم کرنے کی ٹیکنالوجی کا فی عرصہ قبل بازار میں آچکی تھی ،لیکن ہمارے ہاں آج بھی بڑی تعداد میں روایتی انداز ہی میں گیزر تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ اسٹینڈ والے گیزر کہلاتے ہیں جو لوہے اور اسٹیل کی چادر سے بنتے ہیں اور اس کے اوپر انسولیشن (جس کے لیے فوم کی شیٹ استعمال کی جاتی ہے) لگا کر لوہے یا اسٹیل کی چادر کی بیرونی تہہ چڑھا دی جاتی ہے۔

اس میں بہت زیادہ گیس استعمال ہوتی ہے۔ دوسری قسم انسٹینٹ گیزر کی ہے۔ جس میں گیس صرف اسی وقت استعمال ہوتی ہے جب نلکا کھولاجاتا ہے۔ اسے پاکستان میں متعارف ہوئے پانچ سات برس ہوچکے ہیں، لیکن تاحال زیادہ تر گھروں میں پرانی طرز کے گیزر ہی استعمال ہورہے ہیں۔ حالاں کہ انسٹینٹ گیزر پرانی طرز کے گیزر کے مقابلے میں آج بھی زیادہ منہگے نہیں ہیں اور گیس کی بہت زیادہ بچت بھی کرتے ہیں ،لیکن ہماری ذہنیت انہیں ابھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے اس میں گرم پانی ذخیرہ رکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ بات درست ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ مسلسل زیادہ پانی استعمال کرنے کی صورت میں یہ گرم پانی فراہم نہیں کرتے۔ پھر یہ کہ یہ مختلف استعداد کے آتے ہیں۔ آپ اپنی ضرورت کے مطابق ان کی مختلف استعداد کا انتخاب کرسکتے ہیں اورگھر میں مختلف مقامات کے لیے ایسے کئی گیزر لگا سکتے ہیں۔ یہ جگہ بھی کم گھیرتے ہیں۔

اگر کسی وجہ سے آپ انسٹینٹ گیزر نہیں لینا چاہتے تو پرانی طرزکے گیزر کو بھی دانش مندی سے استعمال کرکےگیس اور رقم کی کافی بچت کی جاسکتی ہے۔ مثلا اس کے تھرمواسٹیٹ کو کبھی بھی فل ہاٹ پر سیٹ نہ کریں بلکہ اسے وارم پر رکھیں۔ جب پانی کا استعمال کم ہو تو تھرمو اسٹیٹ کو آف پر سیٹ کر دیں۔ ایسا کرنے سے صرف پائلٹ کی لوروشن رہے گی جس سے گزارے کے لائق گرم پانی ملتا رہے گا۔ علاوہ ازیں اگر آپ کے پرانے گیزر میں مخروطی چکر نہیں لگا ہوا ہے تو اسے لگوانے سے بھی آپ کا گیس کا بِل کم ہوجائے گا۔

دراصل کونیکل بیفل سے حرارت گیزر میں ٹریپ ہو جاتی ہے اور گیس کم استعمال ہوتی ہے۔ اگر ملک بھر کے تمام گیزر میں یہ نصب ہوجائیں تو اس سے ایک اندازے کے مطابق 92 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اسے لگانے کے لیے گیزر میں کوئی اضافی کام نہیں کرنا پڑتا۔ یہ مخروطی شکل کا لوہے کا ڈھانچا ہوتا ہے جسے بہت آسانی سے ہر کمپنی کے تیار کردہ گیزر میں لگایا جاسکتا ہے۔یہ پانی کو گرم کرنے کے دوران گیزر میں پیدا ہونے والی حرارت کو زیادہ دیر تک اندر روکے رکھتا ہے جس کی وجہ سے پانی زیادہ دیر تک گرم رہتا ہے اور بار بار برنر نہ جلنے سے گیس کی کافی بچت ہوتی ہے۔

کئی برس سے ہمارے بازاروں میں سولر گیزر بھی دستیاب ہیں، لیکن معلومات نہ ہونے، نئی ٹیکنالوجی کو آسانی سے قبول نہ کرنے کی ہماری ذہنیت، بعض دکان داروں کی بد دیانتی اور اس کی تنصیب کے لیے زیادہ ہنر مند افراد کی عدم دست یابی کی وجہ سے بہت کم افراد انہیں استعمال کررہے ہیں۔ پھر یہ کہ اس کی قیمت تھوڑی زیادہ ہوتی ہے، لیکن اس کے ذریعے گرم پانی حاصل کرنے پر کوئی خرچ نہیں آتا، تاہم یہ صرف سورج کی روشنی میں کام کرتا ہے۔

اس کا حل یہ بتایا جاتا ہے کہ دن بھر اس کے ذریعے جو پانی گرم ہو اسے محتاط انداز میں استعمال کیا جائے تو ذخیرہ شدہ گرم پانی شب میں بھی دست یاب ہوگا۔ یا پھر شب میں گرم پانی حاصل کرنے کے لیے اس کے ساتھ انسٹینٹ گیزر بھی لگا لیا جائے۔ ایسا کرنے سے ایک مرتبہ آپ کو زیادہ رقم تو خرچ کرنا پڑے گی ،لیکن اس عمل کی وجہ سے ہر سال گیس کے خرچ کی مد میں آپ کو جو بچت ہوگی وہ آپ کی سرمایہ کاری کا بہترین نعم البدل بن جائے گی۔

پہلے والوں کے دعووں کا کیا ہوا؟

شہباز شریف کی حکومت کے اعلانات سے قبل چودہ اکتوبر 2021 کو اس وقت کے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی شبلی فراز نے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھاکہ ملک میں استعمال ہونے والے دس کروڑ پنکھوں کا معیار اعلیٰ ٹیکنالوجی کے مطابق کیا جائے تو ملک میں دو غازی بروتھا ڈیم جتنی بجلی اورچار ارب ڈالرز سے زاید کی بچت ہوگی۔ 

اسی لیے آئندہ سال سے ملک میں صرف وہ پنکھے فروخت ہوں گے جو وزارت سائنس کی جانب سے طے کردہ معیار کے مطابق تیار کیے جائیں گے۔ پنکھوں کے لیے اسٹار ریٹنگ کا نظام متعارف کرایا جائے گا جس سے عوام کو آگاہی ملے گی کہ کون سا پنکھا کیوں منہگا ہے۔

اس سے ایک ماہ قبل بھی شبلی فراز نے کہا تھا کہ گرمیوں میں 60سے 65فی صد بجلی ایئرکنڈیشنرز اور پنکھوں میں استعمال ہوتی ہے۔ پنکھوں کی کارکردگی کو بڑھا کر بجلی کے استعمال میں کمی لائیں گے،80ملین پنکھے ملک میں استعمال ہو رہے ہیں، ہم نے ان کا جائزہ لیا کہ کتنی بجلی استعمال کرتے ہیں، اس لیے وقت آگیا ہے کہ اسٹار ریٹنگ کو متعارف کرایا جائے۔ صارفین مارکیٹ سے پنکھے خریدتے وقت اسٹار ریٹنگ کو دیکھا کریں گے۔

صارفین کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ اسٹار ون، ٹو یا کون سا پنکھا خریدیں جس سے بجلی کی زیادہ بچت ہو۔ عام پنکھا اگر 8سے 12گھنٹے چلتا ہے تو اس کا ماہانہ بل950روپے بنتا ہے۔ اسٹار ریٹنگ کردیں گے تو جس کا ماہانہ بل ماہانہ 950 روپے تھا اب اس کا بل628روپے آئے گا، اسٹار ٹو کا بل 542 روپے، اسٹار تھری کا 477 روپے، اسٹار ریٹنگ فائیو کا بل387روپے آئے گا۔ اگر اس معیار پر پنکھے بنائے جائیں تو ہم تقریباً3400میگا واٹ بجلی بچا سکتے ہیں، یعنی دو غازی بروتھا ڈیم بنانے کے مساوی۔

اس کے علاوہ پانی کی موٹر بھی تقریباً ہر گھر میں موجود ہوتی ہے جو زیادہ بجلی استعمال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فین انڈسٹری کو درآمدی ڈیوٹی میں چھوٹ ملنے سے 3400میگا واٹ بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر پانی کی موٹر بھی معیاری ہو تو پانچ ہزار میگاواٹ بجلی بچائی جا سکے گی۔ اس طرح 40 سے 60 فی صد تک بجلی کی بچت ہوگی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ گرمیوں میں پاکستان کا ترسیلی نظام چوبیس ہزار میگاواٹ بجلی ترسیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سردیوں میں بجلی کی کھپت آٹھ ہزار میگاواٹ تک ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سولہ ہزار میگا واٹ بجلی پاکستان میں ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کولنگ کے آلات بجلی بچانے والے ہوں تو پاکستان کو بجلی کی مد میں بہت بچت ہو گی۔

یہ دعوے کس حد تک عمل کی کسوٹی تک پہنچے، یہ جاننےکے لیے بازارجاکر وہاں فروخت ہونے والے پنکھوں کی اسٹار ریٹنگ (اگر ہوں تو) دیکھ لیں،آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستان میں سرکار کے دعوے اور وعدے کیسے ہوتے ہیں۔

پاور سیکٹر اور سرکلر ڈیٹ

پاکستان کا پاور سیکٹر اس وقت بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بجلی کی چوری اور سرکلر ڈیٹ سمیت متعدد مسائل سے نمٹ رہا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے پاور سیکٹر کے مسائل پر قابو پانے کی کچھ خاص کوششیں نہیں کیں۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیز بھی بجلی کی چوری سے متعلق متعدد مسائل سے نمٹ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں گردشی قرضہ بڑھ گیا ہے۔ خیبر پختون خوا، سندھ اور بلوچستان میں کئی کمپنیز ایسی ہیں جہاں نقصانات زیادہ ہیں اور ریکوری اتنی کم کہ پوری توانائی کی زنجیر کو متاثر کرسکتی ہے۔

پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کے دوران گردشی قرضہ تقریباً2.5ٹریلین روپے تک بڑھ گیا تھا۔2018میں جب پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو مسلم لیگ ن کی حکومت نے گردشی قرضہ 1.6 ٹریلین روپے چھوڑاتھا۔بجلی کے نرخ کم کرنے کے لیے ایک معاہدہ کرنے کی غرض سے پی ٹی آئی کی حکومت نے خود مختار پاور پروڈیوسرز (IPPs) کو تقریباً 200 ارب روپے کی ادائیگی کی تھی۔

کے پی، بلوچستان اور سندھ میں ناقص طرز حکم رانی کے نتیجے میں بجلی کے نقصانات اور چوری میں اضافہ ہوا، جس نے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے میں اہم کردار ادا کیا۔پاور سیکٹر کی نا اہلی نے تیل اور گیس کے شعبے میں بھی مسائل پیدا کیے جس پر تقریباً 1.5 ٹریلین روپے کا گردشی قرضہ تھا۔مائع قدرتی گیس (ایل این جی) ایک اور ایندھن تھا جس کی وجہ سے تیل اور گیس کے شعبوں میں گردشی قرضوں کا ڈھیر لگا۔ اس وقت پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو ایل این جی سپلائی کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) سے 272 ارب روپے وصول ہونے تھے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے گیس کے بحران پر قابو پانے کے لیے سردیوں کے موسم میں تمام ایل این جی گھریلو صارفین کے لیے موڑ دی تھی۔ اس سے توانائی کمپنیاں ایل این جی سرکلر ڈیٹ میں پھنس گئیں۔ایس این جی پی ایل نے دعویٰ کیا کہ اسے گھریلو صارفین سے 100 ارب روپے سے زاید وصول کرنے تھے۔ تاہم، قانونی فریم ورک کی کمی کی وجہ سے گیس کے بلوں کی وصولی ایک مسئلہ ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے پارلیمنٹ سے گیس کی وزنی اوسط قیمت (وکوگ) سے متعلق بل منظور کرالی تھی ۔ لیکن اس بل کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا تھا اورحکومت سندھ بھی اس کیس میں فریق بن گئی تھی۔حکومت سندھ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ان کے گیس کے مختص کوٹے پر سمجھوتا کرے گی۔

دلدل سے نکلنا ہوگا

اب ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ملک میں بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کے لائن لاسز کا حجم 520 ارب روپے سے بھی بڑھ گیا جب کہ گزشتہ دو برس میں ترسیل کے دوران ضایع شدہ بجلی کی رقم کا حجم دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔پاور سیکٹر کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی)کے نقصانات بڑھ کر 520 ارب 30 کروڑ روپے تک پہنچ گئے ہیں جس میں سب سے زیادہ خسارے کا سامنا پشاور الیکٹرک پاور سپلائی کمپنی (پیسکو) کو ہےجس کا خسارہ 153 ارب 50 کروڑ روپے ہے۔ بنیادی اصلاحات کے بغیر اس سے چھٹکارا ملنے کی بھی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بورڈز میں ارکان کا میرٹ پر تقرر کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہےکہ ان تقرریوں کو سیاسی فائدے اٹھانے کے لیے بروئےکار لایا جاتا ہے۔

پاکستان کے سیسمک ایریا کا رقبہ8 لاکھ27 ہزار مربع کلو میٹرز ہےجس میں سے اب تک صرف20فی صد میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام ہوا ہے۔ تیل اور گیس کے مقامی وسائل کو بڑھانے کے لیے حکومت کو ان ذخائر کی تلاش کے زیادہ سے زیادہ منصوبے شروع کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں توانائی کے مسائل نئے نہیں ہیں۔ البتہ روس اور یوکرین کی جنگ اور عالمی رسد کے بحران کے باعث ان میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ درآمدی ایندھن پر ملک کے زیادہ انحصار نے اسے توانائی کے عدم تحفظ سے دوچار کر دیا ہے، جس میں قیمتوں کے دھچکے، فراہمی میں خلل اور ساتھ ہی توانائی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ بھی شامل ہے۔

ہم رکازی ایندھن ( ایندھن کا ضمنی تیل، مایع قدرتی گیس اور کوئلہ) پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، جو ایک اندازے کے مطابق ملک کی بنیادی تجارتی توانائی کی فراہمی کا 86 فی صد حصہ بناتے ہیں۔ پاکستان کا ایندھن کا درآمدی بل مالی سال 2021-22 میں بڑھ کر 23 بلین امریکی ڈالرز تک پہنچ گیا تھا جو اس سے پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 105فی صد زیادہ تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ موٹرز، بوائلرز سمیت دیگر آلات کے باعث ملک میں توانائی زیادہ خرچ ہو رہی ہے۔ صرف رہایشی عمارتوں میں 24 فی صد توانائی استعمال ہو رہی ہے۔

سرکاری منصوبہ تو یہ کہتا ہے کہ سرکاری اور نجی عمارتوں کو سالانہ انرجی ایفی شینٹ آڈٹ کرانا ہوگا۔ غیر معیاری ٹرانسپورٹ بھی توانائی پر بوجھ ہے۔اس شعبے کے لیے نیشنل فیول اکانومی اسٹینڈرڈ زبنائے جائیں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سیکٹر کا سالانہ انرجی آڈٹ ہوگا۔ اس کے علاوہ تجویز ہے کہ الیکٹرک وہیکلز اور چارجنگ اسٹیشنز پر کام تیز کیا جائے اور موٹر ویز پر آٹھ سو سی سی کے علاوہ دیگر سنگل گاڑیوں پربھاری ٹول ٹیکس عاید کیے جائیں۔

یہ سب بلاشبہ فورا کرنے والے کام ہیں، لیکن پتا نہیں کہ بِلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟