• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ ہفتے ہم نے گورنر ہائوس کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور کی پہلی اور قدیم ترین کوٹھی کا ذکر کیا تھا۔ ویسے ہم قارئین کو یہ بتاتے چلیں لاہور ریڈیو کا آغاز وائی ایم سی اے (ینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن) کی تاریخی عمارت سے ہوا تھا۔ یہ تاریخی خوبصورت عمارت آج بھی موجود ہے۔ مگر کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ اس کا سفید اور خالی بڑے بڑے ڈبوں والا فرش کبھی دیکھنے سے تعلق رکھتاتھا۔ اس وائی ایم سی اے کے ہال میں آغا شورش کاشمیری اور کئی دیگر رہنمائوں نے جلسے کئے اور پھر جلوس کی صورت میں یہاں سے چیرنگ کراس جایا کرتے تھے۔ ہم نے بھی آغا شورش کاشمیری کے کئی جلسے جلسو ں میں یہاں شرکت کی اور جلوسوں میں پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں اور بھاگ کر ڈبل ڈیکر میں سوار ہو کر اپنی جان بھی بچائی۔

خیر جس عمارت کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ ایمپریس روڈ اور ڈیونڈر روڈ کے سنگم پر واقع ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج شاید ہی کسی لاہوریئے کو اس تاریخی عمارت کے بارے میں پتہ ہو کیونکہ ریڈیو پاکستان یہاں سےکئی برس قبل اپنی نئی عمارت جو کہ پی ٹی وی کے ساتھ ہے وہاں منتقل ہوگیاتھا۔ اس تاریخی عمارت جہاں سے مصطفیٰ علی ہمدانی نے 14اگست 1947ء اور 15اگست کے انتہائی ابتدائی لمحات میں یہ اعلان کیا تھا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔ عزیز قارئین یہ بات نوٹ فرمائیں پاکستان کا پہلا یوم آزادی 15اگست 1947ء کو ہی منایا گیا تھا۔ ابھی صرف چند روز پہلے تک ریڈیو پاکستان کی یہ پرانی عمارت اپنی اصل شکل و صورت میں موجودتھی اب اس کو شادی گھر میںتبدیل کردیا گیا ہے۔ کسی بھی حکومت کو اس بات کا احساس نہ ہوا کہ اس تاریخی عمارت کو محفوظ کیا جائے۔ یہاں ریڈیو پاکستان لاہور کی تاریخی لکھی گئی ہے۔ اس ریڈیو پاکستان لاہور نے پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کو بہترین اداکار دیئے، بہترین شاعر، ڈرامہ نگار، نغمہ نگار اور موسیقار دیئے تھے۔ کیا کیا صداکار یہاں پر ہوتے تھے۔ ان کا پھر کبھی ذکر کریں گے۔

لیں جناب گورنر ہائوس کے پچھلے دروازے سے جب آپ دربار ہال کی طرف جائیں تو آپ کو ایک تاریخی پیالہ نظر آئے گا۔ یہ پیالہ بدھا کا پیالہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پیالہ کئی صدیاں پرانا ہے۔ موجودہ گورنر محمد بلیغ الرحمان نے اپنے ا سٹاف کو حکم دے رکھا ہے کہ اس پیالے میں ہر وقت پانی رہنا چاہئے تاکہ پرندوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ گورنر محمد بلیغ الرحمان گورنر ہائوس کے اندر مختلف پرندوں اور دیگر جانوروں کا خیال بہت زیادہ رکھتے ہیں۔اس قدیم پیالے کی ایک تاریخ ہے۔ بدھا کا یہ پیالہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کو باجوڑ میں ملا تھا جو اس نے اس وقت کے گورنر کو دے دیا تھا۔یہ پیالہ صدیوں پرانا ہے جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجودہے۔ گورنر ہائوس کے اندر ایک قدیم پیانو بھی ہے جو گوروں کے زمانے کا ہے۔ بڑا خوبصورت اور کلاسک پیانو ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور کے کئی تعلیمی اداروں میں گوروں نے اپنے زمانے میں بڑے خوبصورت پیانو رکھے تھے جو غائب کردیئے گئے۔ مثلاً کوئین میری کالج کا پیانو ہم نے خود 1990ء تک دیکھا، پھر اچانک غائب کردیا گیا۔ اس کے علاوہ کنیئرڈ کالج، ایچیسن کالج، کیتھڈرل چرچ اور لیڈی میکلیگن کالج اور اسکول میں بھی ہم نے پیانو دیکھے تھے۔کنیئرڈ کالج کا پیانو آج بھی اصل حالت میں ہے مگر بجتا نہیں۔کیتھڈرل چرچ جسے عرف عام میں ککڑ گرجا بھی کہا جاتا تھا اس کا پیانو ہوا کے ذریعے چلتا تھا۔ اس گرجے کو ککڑ گرجا اس لئے کہا جاتا تھا کہ اس گرجے کے اوپر ہوا کا رخ معلوم کرنے کیلئے ایک مرغا لگا ہوتا تھا اس لئے لاہوریئے اس کو ککڑ گرجا کہا کرتے تھے۔

گورنر ہائوس میں 1890ء میں ایک تاریخی پیانو لایا گیا تھا۔ ایک مدت تک تو یہ پیانوبجتا رہا۔ ،خصوصاً گورے گورنر کے دور میں یہاں جو تقاریب ہوتی تھیں تو اس پیانو کا خوب استعمال ہوتا تھا،اس دور میں گورنر ہائوس کا ماحول اور یہاں کے طور طریقے آج کے مقابلے میں بہت مختلف تھے۔ انگریز دور میں گورنرہائوس کے اردگرد کا علاقہ بہت کھلا اور صاف ستھرا تھا۔ امریکن کونسل جنرل کے آفس کے آنے سے قبل گورنر ہائوس کا پچھلی طرف کا دروازہ اور ایمپریس روڈ کی سڑک خوبصورت درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی، اب یہ سڑک اور علاقہ بہت گندا اور بدنما ہو چکا ہے۔ یہ تاریخی پیانو قیام پاکستان کے بعد خراب ہوگیا اور ایک مدت سے خراب پڑا ہوا تھا۔ چنانچہ گورنر بلیغ الرحمان نے اس تاریخی پیانو کو درست کرانے کی بہت کوشش کی، کئی پیانو ٹھیک کرنے والے مستری، مکینک، کاریگر بلوائے گئے، آخر ایک ایسا پیانو ساز مل گیا جس نے اس پیانو کو درست کردیا۔ یہ بات قارئین کیلئے یقیناً دلچسپی کا باعث ہوگی کہ پیانو جو کاریگر ٹھیک کرتا ہے وہ پیانو کے پچھلی طرف اپنا نام ، تاریخ اور پیانو کی سروس کا پورا ریکارڈ بھی درج کردیتا ہے تاکہ جب بھی کوئی نیا پیانو ٹھیک کرنے والا آئے تو اس کو پتہ چل سکے کہ اس نے پیانو میں کیا درست کیا تھا۔ پیانو کو درست کرنے اور بجانے کی تاریخ ایک کپڑے پر ایک مختلف انداز میں درج ہے۔ بظاہر وہ گرین دھاگے نظر آتے ہیں ، مگر یہ بڑے قیمتی ہیں۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ 1904ء اور 1908ء میں اس پیانو کی سروس ہوئی۔ پھر 1940ء میں اس کی آخری سروس ہوئی تھی اس کے بعد اب 2023ء میں سروس کی گئی۔ جس کے بعد اس پیانو نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ امید ہے کہ موجودہ گورنر پنجاب اب کسی تقریب میں اس تاریخی اور قدیم پیانو کو نہ صرف لوگوں کو سنوائیں گے بلکہ اس کا باقاعدہ استعمال بھی کیا جائے گا۔ گورنر ہائوس کے اندر بے شمار تاریخی اور نادر اشیاء خصوصاً قدیم تلواریں، بندوقیں، خنجر اور دیگر قیمتی اور نایاب اشیاء موجود ہیں۔ مثلاً آج بھی گورنر ہائوس میں ایک ایسی تاریخی انتہائی قیمتی لکڑی کی میز ہے جو ہینڈل کے ذریعے کھلتی، بڑی اور لمبی ہوتی جاتی ہے۔ شاید لوگوں کو یاد ہو کہ کسی زمانے میں موٹر گاڑیوں اور ٹرکوں کو اسٹارٹ کرنے کیلئے لوہے کے ہینڈل کے ذریعے انجن کو اسٹارٹ کرنا پڑا تھا، یہ اسی طرح کا ہینڈل ہے جس سے یہ میز کھلتی اور بند ہوتی ہے۔ گورنر ہائوس میں بڑا خوبصورت انگریز دور کا فرنیچر ہے۔ ملکہ الزبتھ کا سویٹ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین