سوال یہ ہے کہ کیا واپڈا کے بغیر آج کا انسان زندگی بسر کر سکتاہے ؟ دانستہ طور پر میں نے یہاں ’’واپڈا ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے ، ’’بجلی ‘‘کا نہیں ۔بجلی کے نرخ میں حالیہ خوفناک اضافے کے بعد کئی خودکشیاں سامنے آئی ہیں ۔ایک مفلوک الحال شخص نے موٹر سائیکل بیچ کر پچیس ہزار کا بل ادا کیا۔ اگلے مہینے چھبیس ہزار کا بل سامنے آیا تو خودکشی کر لی ۔ ایک بوڑھے آدمی نے اسلام آباد میں کھنہ پل سے کود کر اپنی جان لے لی۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ بجلی کا بل ادا کرنا اگر آپ کی استطاعت سے باہر ہو چکا ، آپ کا میٹر کٹنااور گھر کا اندھیرو ں میں ڈوب جانا اگر طے ہو چکا تو کیا خود کشی کے علاوہ اور کوئی صورت باقی نہیں؟ کیااپنی جان لے کر اولاد کو زمانے کے حوالے کر دینا چاہیے؟
لوگ کہیں گے ،ایک دولت مند باپ کا بیٹا کیسے اس موضوع پر بات کر سکتا ہے؟ میں تیرہ برس کا تھا ، آٹھویں جماعت میں جب ہاسٹل میں داخل ہوا۔ سہولتوں کے عادی لڑکے کیلئے سخت ضابطوں والا ماحول۔ فجر سے پہلے اٹھا دیا جاتا۔شدید سردی میں صبح سویرے سخت ورزش کرائی جاتی۔پانی کی وہاں قلت تھی۔رفع ء حاجت اور وضو کیلئے پانی لوٹے میں لے جانا پڑتا ، غسل کیلئے بالٹی بھرکے ۔سردیوں میں باری باری لڑکے گیزر میں لکڑیاں جلاتے ۔گرم پانی کی ٹونٹی ایک ہی تھی۔
میں بیس برس کا تھا، جب حفظ کا شوق ہوا ۔ مدرسے میں اکثر بجلی آنکھ مچولی کرتی ۔ شدید حبس کے دنوں میں لباس پسینے سے بھیگ جاتا۔ جب بجلی آتی تو پنکھے کی ہوا گیلے لباس کی وجہ سے ناگوار گزرتی ۔
پانچ سال قبل چوچہ شیخاں میں جانوروں کا ڈیرہ بنانے کیلئے ایک گھراور ملحقہ زمین کرائے پر لی۔ پرانے کرائے دار افغان مہاجر تھے۔ معلوم ہوا کہ کئی سال سے بجلی انہوں نے استعمال ہی نہیں کی۔ پانی کی ٹینکی بھی نہیں تھی۔ پانی وہ قریب کنویں سے بھر کے لایا کرتے ۔
انسان عادی ہو جاتا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ بجلی اور اس سے چلنے والی سہولتیں ابھی ایک ڈیڑھ صدی کی بات ہیں ۔ماضی کے عظیم بادشاہ گھوڑے پہ سفر کرتے رہے، گاڑی پہ نہیں۔ بجلی اس وقت ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی ۔ فریج اور ٹیلی ویژن اورنہ موبائل فو ن ۔آج تو آدمی کے پاس متبادل موجود ہے۔ایک غریب سے غریب شخص زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے بل ادا کر سکتاہے ۔اسے اچانک پچیس ہزار روپے کا بل موصول ہوتاہے ۔ایک دو مہینے کسی نہ کسی سے ادھار لے کر ادا کرتاہے ۔ تیسرے مہینے پانی اس کے سر سے گزر جاتا ہے ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ میٹر اب کٹ کے رہنا ہے اور گھر اندھیروں میں ڈوب کے رہنا ہے ۔بجلی کی سہولت کا انسان شدید عادی ہو چکا اور اس کے بغیر زندگی کا اس کے لیے کوئی تصور نہیں ۔شدید جذباتی کیفیت میں وہ خودکشی کا فیصلہ کر لیتا ہے ۔ یہ وہ غریب ترین شخص ہے ، جس کے گھر میں صرف ایک دو پنکھے اور انرجی سیور استعمال ہو رہے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے دس ہزار روپے کا کوئی آپشن مل جائے تو وہ خودکشی نہیں کرے گا۔قریب چالیس ہزار روپے میں اسے وہ سولر پینل اور بیٹری مل سکتی ہے ، جس سے اس کے گھر کے دو پنکھے اور دو تین انرجی سیور چل سکتے ہیں ۔اگر آپ بیٹری نہیں لے سکتے تو پہلے صرف سولر پینل خریدیں ۔یاد رہے کہ واپڈا سے آپ کا لین دین ختم ہو چکا ہے۔آپ جو ہر مہینے اسے دس ہزار روپے ادا کر رہے تھے ، وہ اب آپ نے ادا نہیں کرنے۔ کسی سے تیس چالیس ہزار کا قرض لے لیں اور ہر مہینے دس دس ہزار کر کے یہ قرض ادا کردیں ۔ آہستہ آہستہ آپ کی چھت پہ اتنی سولر پلیٹیں اور اتنی بیٹریز اکھٹی ہو جائیں گی کہ آپ کے گھرکی بجلی کی تمام ضروریات اس سے پوری ہو سکیں گی۔
انسان بجلی کا اتنا عادی ہو گیا ہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا اس کے پاس کوئی تصور نہیں ۔اسے یہ یاد ہی نہیں کہ تین لاکھ برس انسان نے بجلی کے بغیر ہی گزارے ہیں ۔یہ ایجاد تو ابھی کل کی بات ہے ۔پیغمبر ؐ اور اصحابؓ نے بجلی کے بغیر ہی اپنی خیرہ کن زندگیاں گزاریں ۔
سختی کا انسان عادی ہو جاتا ہے ۔ کیا عمران خان اس زندگی کا عادی تھا ، جن سے اٹک جیل میں اسے گزارا جا رہا ہے ۔آٹھ بائی دس فٹ کا زندان ، گندا بیت الخلا، کیڑے مکوڑے اور اس حالتِ زار پہ دشمنوں کی ہنسی ۔وہ تو ہر قسم کی آسائشوں کا عادی تھا ۔ اس پہ اگر وہ اس جذباتی سوچ میں گم ہو جائے کہ میں نے اس قوم کیلئے کیا کچھ کیا اور آج میں کس حال میں پڑا ہو ں ؟
جذباتی نہیں ہونا ہوتا۔ اگر میٹر کٹنے کے خوف سے آپ اپنی جان لے لیتے ہیں تو آپ کی اولاد کا کیا ہوگا؟ اسے نہ صرف بجلی نہیں ملے گی بلکہ خوراک اور باپ کے سائے سے بھی وہ محروم ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے تو آپ کی بیوی آپ سے کہیں دلیر ہے ، جو آپ کی خودکشی کے بعد ہر قسم کے حالات کا اکیلے سامنا کرے گی اور خودکشی کا نہیں سوچے گی۔لوگ بے انتہا تکلیف دہ اور لا علاج بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود تمام عمرتکلیف برداشت کرتے ہیں ۔ خودکشی کوئی آپشن نہیں اور واپڈا کے بغیر زندگی عین ممکن ہے ۔ کوشش کرکے اس جذباتی کیفیت سے خود کو نکالیے!