• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح کے اوقات میں گھر سے نکلیں تو سڑکوں پر کاروبار، ملازمت اور اسکول کالج جانے والے طالب علموں کا رش ہوتا ہے۔ کام پر جاتے ہوئے فوجی بھرتی کے مرکز کے سامنے سے گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے جہاں مہینے میں چند روز دور دراز سے نو عمر بچے بچیاں فوجی بھرتی کے ابتدائی ٹیسٹ وغیرہ دینے آتے ہیں۔ آج بھی گزرتے ہوئے کثیر تعداد میں بچے بچیوں کو اپنے والدین یابھائیوں کے ہمراہ بھرتی مرکز کے باہر دیکھا تو دو روز قبل شہید ہونے والے پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں اور ان کے پیاروں کے دکھ کا احساس کر کے دل سوگوار ہو گیا ، مگر حوصلہ بھی ہوا کہ وطن کیلئےجانیں قربان کرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی۔ اسی سڑک پر کچھ فاصلے پر ایک ایلیٹ کلاس کے بچوں کا پرائیویٹ اسکول ہے جہاں سینکڑوں گاڑیاں بچوں کو اسکول لانے لیجانے پر مامور ہیں۔ چھٹی کے ٹائم اسکول کے سامنے مین سڑک پر ٹریفک بلاک ہوجاتی ہے مگر اسکول انتظامیہ اور اس طرح کے تمام اسکول جہاں بچوں سے لاکھوں روپے فیسوں اور غیر نصابی سرگرمیوں کیلئے وصول کئے جاتے ہیں مناسب پارکنگ اور ٹریفک کی روانی کیلئےچند ہزار کے ہیلپر رکھنے کو تیار نہیں، حکومت کو چاہیے کہ تمام بڑے تعلیمی اداروں کو پابند کرے کہ بچے پرائیویٹ گاڑیوں پر اسکول کالج آنے کے بجائے خصوصی منی بسوں اور ویگنوں میں پک اینڈ ڈراپ ہوں۔ سوا کروڑ سے زائد آبادی والے بے ترتیب شہر لاہور کیلئےسرکاری ٹرانسپورٹ ناکافی ہے اور عوام کی اکثریت کی سفری ضروریات پرائیویٹ بسوں، ویگنوں اور رکشوں وغیرہ سے پوری ہوتی ہیں تاہم پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں لگاتار اضافے نے تعلیمی اداروں اور دفاتر جانے والے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، سڑکوں اور چوراہوں پر مرد، خواتین اور طالب علم منی بسوں اور رکشہ چلانے والوں سے کرائے پر بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ موٹر سائیکل سوار معاشی مشکلات کی وجہ سے محض ایک دولیٹر پٹرول ڈلواتے ہیں اور اکثر تیل ختم ہونے پر موٹر سائیکل لٹا کر پٹرول کے چند قطرے انجن تک پہنچانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ شہروں میں بے ہنگم ٹریفک کا یہ حال ہے کہ ٹریفک قوانین کی پابندی صرف موٹر سائیکل سواروں کے ہیلمٹ اور کمرشل ٹرانسپورٹ کو چیک کرنے کی حد تک رہ گئی ہے۔ لین ڈسپلن اور مقررہ رفتار کی پابندی سے ڈرائیور حضرات مبرا ہیں اور ٹریفک پولیس اہلکار بھی کام کی زیادتی اور ٹریفک لوڈ کی وجہ سے بے بس نظر آتے ہیں۔ چند روز قبل شہر کی مصروف شاہراہ پر ایک افسوسناک حادثہ رونما ہوا۔ کسی کالج کی طالبہ بس میں سوار ہونے کیلئےسڑک عبور کرنے لگی اور گاڑیوں کے راستہ نہ دینے کی وجہ سے سڑک کے بیچ تیز رفتار موٹر سائیکل سے ٹکرا کر شدید زخمی ہو گئی۔ بر وقت ایمرجنسی وارڈ پہنچنے سے اس کی جان تو بچ گئی مگر اس کا تعلیمی سمیسٹر ضائع ہو گیا۔ مہذب معاشروں اور ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی شخص سڑک عبور کرنے لگے تو دونوں طرف سے ٹریفک رک جاتی ہے اور راستہ دینے والوں کو پیچھے والے ہارن بجا کر اپنی خفگی کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ ملک میں بدترین معاشی حالات کے باوجود سرکاری سطح پر وسائل اور گاڑیوں کا بے دریغ استعمال جاری ہے، اعلیٰ حکومتی عہدیداران مہنگی گاڑیوں میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ایک مقروض ملک کیلئےشرم کا باعث ہے۔ امریکہ کینیڈا اور دوسرئے مغربی ممالک میں صرف محکمے کے انچارج، سیکرٹری یا کمشنر کے پاس سرکاری گاڑی ہوتی ہے باقی تمام افسران و اسٹاف ذاتی گاڑیاں یا پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو بجلی، پٹرول، گیس، پانی وغیرہ کی مد میں ریلیف دینا تو شاید حکومت کے بس کی بات نہیں مگر مفت مراعات ختم کر کے اور تیرہ سو سی سی سے بڑی تمام سرکاری گاڑیاں نیلام کر کے حاصل کی گئی رقوم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کر دی جائے تو شاید غریب عوام کے دکھوں کا کچھ مداوا ہو جائے۔

لاہور اور دوسرے شہروں میں مختلف مقامات پر صاحب ثروت حضرات کی طرف سے مفت کھانے کے مراکز پر طویل قطاریں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں مختلف پرائیویٹ اداروں کے ملازم اور سیکورٹی گارڈ بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔ امیر لوگوں کی دولت اور حیثیت میں جائز ناجائز طریقے سے حیرت انگیز اضافے اور متوسط طبقے کو غربت کی طرف دھکیلے جانے سے ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کمزور معیشت مستقبل سے متعلق بے یقینی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کاروباری بندش، سیاسی محاذ آرائی اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، جس کی وجہ سے خوراک کا بحران وغیرہ وہ چند فیکٹر ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اندرونی و بیرونی سازشوںکی ٹارگٹ ہماری ریاست کو فوری راست اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے وسائل پیدا کرنا، امن وعامہ کی صورت حال بہتر بنانا ، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ سبھی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ان حالات کو بہتری کی طرف لانے کیلئےمخلص، ایماندار اور محب وطن لیڈر شپ کی ضرورت ہے وگرنہ حالات گمان سے زیادہ بدتر ہو سکتے ہیں۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین