• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیچے گرتے گرتے جب کوئی زمین پر گر پڑے تو وہ زندگی کی آخری نشانی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ زمین پر گرنے کے بعد لازم ہوتا ہے کہ گرنے والا اٹھ کھڑا ہو لیکن اگر اس میں اُٹھنے کی سکت نہ رہے تو موت یقینی ہے کیونکہ زمین کے نیچے صرف قبر ہوتی ہے۔ یہی حالات افراد کے علاوہ قوموں کے بھی ہوتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی کئی قوموں کا ذکر ملتا ہے جو کبھی آسمانوں کی بلندیوں کو چھو رہی تھیں لیکن جب ان پر زوال آیا تو وہ پہلے آہستہ آہستہ نیچے گرنے لگیں اور پھر زمین سے بھی نیچے چلی گئیں۔ یعنی اپنی قبروں میں اور انکا نام و نشان ہمیشہ کیلئے مٹ گیا۔ آج پاکستان کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں۔ آج ہم بھی تنزّلی کی آخری حد تک گِر چکے ہیں اگر ہم اب بھی اپنے پائوں پر کھڑے نہ ہوئے تو یقین جانئے ہم اپنی قبر کے دہانے پر پہنچے ہوے ہیں ۔ ہمارے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ہم انسانی تاریخ کا وہ واحد بد قسمت ملک ہیں جو اپنے قیام کے صرف 23برس بعد ہی دو لخت ہو گیا۔ حالانکہ عام انسانوں کے ذاتی تعلّقات بھی اس سے زیادہ دیر تک برقرار رہتے ہیں جبکہ ملکوں کی زندگی تو صدیوں پر محیط ہوتی ہے اس سے ایک بات تو پوری ثابت ہو چکی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ملکوں کو اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔ اس سے نہ تو ملک بچتے ہیں اور نہ ہی مذہب کیونکہ ایک ہی مذہب کے اندر موجود فرقوں کے نزدیک مذہب کی اپنی اپنی تشریح ہوتی ہے۔ جس کی موجودگی میں اتحاد نہیں محض نفاق پیدا ہوتا ہے۔ انقلاب ِ فرانس سے پہلے کم و بیش دنیا کے ہر ملک میں مذہبی اجارہ داروں کی حکومت رہی ہے۔ جنہوں نے انسانوں کو صلیبی جنگوں اور فرقہ وارانہ تصادم کے سِوا کچھ نہ دیا چنانچہ انقلاب ِ فرانس نے جب مذہب اور ریاست کو علیحدہ علیحدہ کردیا ۔ تو انسانی تاریخ نے ایک نئے دور کو جنم دیا۔ اس سے نہ صرف مذہبی اجارہ داروں کی غلامی سے آزادی ملی بلکہ اس نظریے پر عمل کرنیوالی قوموں نے ترقی کی دوڑ میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کیونکہ اس دور نے ان آفاقی سچائیوں کو مذہب کا نام لئے بغیر اپنا رہنما بنا لیا جو دنیا کے ہر مذہب کا مدّعا ہے۔ اس سے سوسائٹی میں نظریاتی اختلافات ختم ہونے لگے اور وہ اپنا سارا وقت تعمیری سرگرمیوں میں گزارنے لگے۔ مذہب اور سیاست کا ملاپ اپنی ہلاکت انگیزی کے باعث ایک متروک شدہ نظام تھا۔ جسے ہم نے بڑے فخر سے اپنا لیا اور آج ملک مذہبی انتہا پسندی، فرقہ وارانہ تصادم اور نظریاتی کنفیوژن کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار رہا ہے۔ جبکہ پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد بنگلہ دیش نے مذہب کو سیاست سے علیحدہ کر دیا اور آج وہ ترقی کی دوڑ میں ہم سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ اگر مذاہب ملکوں کی بنیاد بن سکتے تو ایک ہی مذہب یعنی عیسائیت سے تعلق رکھنے والے سو سے زیادہ ملک نہ ہوتے اور نہ ہی مسلمانوں کے پچاس سے زیادہ ملک ہوتے۔ یہ تو ملکوں کی بات ہے جن کا ایک مذہب ہوتا ہے لیکن ان میں فرقے اور ذات برادریاں الگ الگ ہوتی ہیں۔ اگر آپ ایک خاندان پر غور فرمائیں تو اس میں نہ صرف مذہب، فرقہ، ماں باپ اور رشتے دار بھی ایک سے ہوتے ہیں وہ پھر بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ بالا بیان کردہ یکساں صفات کسی خاندان کو بھی ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتیں تو وہ ملکوں کو کیسے بچا سکتی ہیں جو چیز خاندانوں اور ملکوں کو توڑ دیتی ہے وہ ہے ناانصافی۔ چاہے وہ معاشی نا انصافی ہو، سماجی نا انصافی یا سیاسی نا انصافی۔ اور اسی ناانصافی کو ختم کرنے کیلئے سیاسی دانشوروں نے جمہوری نظام متعارف کروایا ۔ جس کے تحت تمام افراد اور اداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کا رمیں رہیں اور کسی دوسرے کے اختیارات میں دخل نہ دیں۔ جہاں ہم نے مذہب اور ریاست یا سیاست کو ملانے کا خوفناک تجربہ کیا وہیں ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس ملک میں جمہوریت پنپنے نہ پائے۔ اس میں سب سے بڑا کردار اس ملک کے فوجی ڈکٹیٹروں، مذہبی انتہا پسندوں اور بیوروکریسی نے ادا کیا جن کا قیامِ پاکستان میں سرِے سے ہی کوئی کردار نہیں تھا۔ بلکہ وہ انگریزوں کی ملازمت انجوائے کر رہے تھے۔ سیاستدانوں کو بدنام کرنے، انہیں طرح طرح کی اذیّتیں دینے، ان پر پابندیاں لگانے، پاپند ِ سلاسل کرنے اور پھانسیاں دینے کے عمل نے اس ملک میں نئی قیادت اور نئی سوچ کو نہ صرف روک دیا بلکہ سیاستدانوں کو ایک گالی بنا دیا۔ فوجی ڈکٹیٹروں نے پاکستان بنانے والے سیاستدانوں اور بابائے قوم کی ہمشیرہ تک کو غدّار قرار دیدیا۔ ڈکٹیٹروں نے عوام کی بجائے اپنی کٹھ پتلیوں کو عوام پر مسلّط کیا اور جب ان کٹھ پتلیوں نے اپنے دماغ سے سوچنے کی کوشش کی تو انکا سر قلم کر دیا گیا۔ پہلے جب امریکی مفادات پورا کرنے کے صلے میں ، ڈالروں کی بارش ہوتی تھی تو ان حریص لوگوں نے اپنے تمام مفادات انکی جھولی میں ڈال دئیے اور ملک تباہی کی دلد ل میں دھنستا چلاگیا۔ اقتدار پر قابض فوجی ڈکٹیٹروں کے بعد آنے والے سیاسی جرنیلوں نے پسِ پردہ رہ کر جو جرائم کئے ہیں وہ فوجی ڈکٹیٹروں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ جنرل باجوہ، جنرل فیض اور انکے پیش رئوں نے محض اپنی ملازمت میں توسیع کی خاطر تیرہ چودہ سال تک ہر ادارے میں ایسی اتھل پتھل کی کہ خدا کی پناہ۔ مقصد ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لانا تھا۔ جو ان کے ’’اینٹی سیاستدان‘‘ ایجنڈے کو آگے بڑھائے اور یہ کرتے کرتے ملک اب زمین پر گر ِ چکا ہے۔ کیا ان کیلئے کوئی سزا نہیں؟ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو تمام اسٹیک ہولڈر ز کو مل جل کر مذہب کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا اور ملک میں حقیقی جمہوریت بحال کرنا ہوگی۔ کیونکہ جہاں تک ہم گرِ چکے ہیں اس سے نیچے صرف قبر ہے۔

تازہ ترین