• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میں اب تک تاثر یہ تھا کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین اس معاملے پر کوئی اختلافات نہیں ہیں اور مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے لیکن ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اختر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے بعد یہ تاثر قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ ڈی جی رینجرز نے پولیس میں ممکنہ تبادلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ پولیس سیٹ اپ میں تبدیلی سے آپریشن متاثر ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی رینجرز کو چیف منسٹر ہاؤس میں بلایا اور ان سے اس معاملے پر تفصیلی بات کی۔ وزیر اعلیٰ اور ڈی جی رینجرز کی ملاقات کے حوالے سے چیف منسٹر ہاؤس کی طرف سے کوئی تفصیل نہیں دی گئی صرف اتنا کہا گیا کہ ملاقات میں ٹارگٹڈ آپریشن اور امن وامان کی صورت حال پر غور کیا گیا تاہم ذرائع سے یہ خبریں ضرور شائع ہوئیں کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے ڈی جی رینجرز کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ سندھ حکومت نے پولیس افسروں کے مجوزہ تبادلے روک دیئے۔ معروف پولیس افسر راؤ انوار کو ایس ایس پی ضلع ملیر تعینات کرنے کے احکامات جاری ہوئے تھے لیکن تادم تحریر انہیں نئی ذمہ داریوں کا چارج نہیں لینے دیا گیا۔ حکومت سندھ کی طرف سے ڈی جی رینجرز کے بیان پر کوئی ایسا ردعمل نہیں آیا جس کی وجہ سے وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان صورت حال مزید کشیدہ ہوتی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی تدبر سے کام لیتے ہوئے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کی طرف سے بھی ایک بیان شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ سیکورٹی اداروں اور سندھ حکومت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے باوجود سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگ یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی تناظر میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا بھی یہ بیان سامنے آیا ہے کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں کسی سیاسی دباؤ یا رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔
یہ بات نہ صرف کراچی کے لوگوں کے لئے پریشان کن ہے بلکہ پورے پاکستان کے عوام کے لئے تشویش کا باعث ہو سکتی ہے جو گذشتہ تین عشروں سے کراچی میں امن قائم ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ڈی جی رینجرز کی جانب سے میڈیا کو بیان جاری ہونے کے بعد بھی لوگوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے معاملات ٹھیک نہیں جارہے ہیں۔ پولیس میں تبادلوں کا مسئلہ لوگوں میں لانے کے بجائے اندرونی طور پر بھی حل کیا جا سکتا تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین اختلافات پیدا ہونے کا تاثر ان قوتوں کے لئے مفید ہو گا جو کراچی کا امن تباہ کئے ہوئے ہیں۔ اس تاثر کو فوری طور پر ختم ہونا چاہئے۔ ٹارگٹڈ آپریشن کی کامیابی کے بارے میں بہت کم لوگ پر امید تھے اور ذرائع ابلاغ میں ہونے والے تبصروں اور تجزیوں میں یہ بات کچھ عرصے سے کھل کر کی جا رہی ہے کہ یہ آپریشن ناکام ہو سکتا ہے۔ اب اختلافات کے حوالے سے خبریں آنے کے بعد بعض حلقے یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے منطقی انجام کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ رینجرز کے اس ٹارگٹڈ آپریشن سے باہر آنے کا جواز اور ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ مزید قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے سندھ حکومت نے نہ صرف مکمل تعاون کیا ہے بلکہ انتہائی تدبر کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے خود ہی کراچی کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف خود کراچی تشریف لائے تھے انہوں نے کراچی میں قیام امن کے لئے نہ صرف سیکورٹی اداروں سے طویل مشاورت کی تھی بلکہ سندھ کی تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لینے کے لئے بھی سیاسی رہنماؤں کے ساتھ طویل اجلاس منعقد کئے تھے ۔ وفاقی حکومت نے خود ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کی کمان رینجرز کو سونپی جائے گی۔ سندھ پولیس نے بھی رینجرز کی کمان میں کام کرنے کا فیصلہ قبول کیا تھا۔ وزیراعظم کی نیت درست تھی اور کراچی میں امن قائم کرنے کی خواہش قابل ستائش تھی لیکن ٹارگٹڈ آپریشن کی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کہ گذشتہ تین عشروں سے کراچی میں امن قائم کیوں نہیں ہو رہا ہے اور ماضی میں ہر ہونے والا آپریشن ناکام کیوں ہوا ہے؟ وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے سابقہ دو ادوار حکومت میں کراچی میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور ان کی ایک حکومت کو تو کراچی کی بدامنی ہی کھا گئی تھی۔ جاری ٹارگٹڈ آپریشن کی حکمت عملی طے کرتے ہوئے ماضی کے تجربات کو سامنے رکھنا چاہئے تھا۔ ماضی میں بھی دہشت گردی کے خلاف ہر آپریشن کا رخ دوسری طرف موڑ دیا جاتا تھا شاید اس دفعہ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب آپریشن بھی جاری ہے اور دہشت گرد بغیر کسی رکاوٹ اور خوف کے کراچی میں اپنی کارروائیاں کررہے ہیں ۔ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی نے لوگوں کی ٹارگٹڈ آپریشن سے وابستہ امیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اب اگر لوگ یہ کہیں کہ ریاستی اداروں کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں ، ان کے منہ پر کوئی ہاتھ نہیں رکھ سکتا۔ اب کراچی کے لوگوں کے لئے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپریشن جاری رہے یا ختم ہو جائے کیونکہ وہ تو روزانہ لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ آپریشن میں کئی مرحلے ایسے آئے کہ سندھ حکومت کو وفاقی حکومت کی آپریشن کے حوالے سے حکمت عملی پر اعتراض ہو سکتا تھا لیکن اس نے اعتراض نہیں کیا ۔ حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس دوران کوئی ایسا موقع پیدا نہیں ہونے دیا جس میں ان پر آپریشن کو ناکام بنانے کا الزام عائد کیا جا سکے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ پولیس نے بھی ماضی کی طرح اس آپریشن میں بھی بہت بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سندھ پولیس کے کئی افسران اور اہلکار دہشت گردوں کے حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ اب بھی کراچی میں پولیس موبائلز اور چوکیوں پر حملے جاری ہیں۔ پولیس کے جوانوں کو انفرادی طور پر بھی نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن پولیس کی طرف سے بھی کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ وہ اس آپریشن سے نکلنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو چاہئے کہ وہ صورت حال کو سنبھالیں کیونکہ کراچی میں اگر یہ ٹارگٹڈ آپریشن خدانخواستہ ناکام ہوا تو ملک کی داخلی سلامتی پر اس کے انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ انہیں ایک بار پھر کراچی میں آکر حکومت سندھ، سیکورٹی اداروں اور سیاسی قوتوں کے ساتھ مشاورت کرنی چاہئے اور آپریشن پر ان کا ’’فیڈ بیک‘‘ لینے کے بعد اگر ضروری ہو تو آپریشن کی موجودہ حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہئے۔
تازہ ترین