• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیساکہ ہم جانتے ہیں پاکستان پر ’’کڑا وقت‘‘ آیا ہوا ہے اور میرے حساب سے یہ ’’برا وقت‘‘ اچانک نہیں آپڑا ،اس کیلئے برسوں سے زمین تیار کی جارہی تھی شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر گزشتہ آدھی صدی سے پاکستان میں اتھل پتھل ہے یہاں کے تمام ادارے، سوسائٹیاں، سرکاری و غیر سرکاری انسٹی ٹیوشن، ایسوسی ایشنز، اکیڈمیاں،یونیورسٹیاں، پارٹیاں،سیاسی و مذہبی جماعتیں اور تمام اعلیٰ و ارفع قدریں سب گڈ مڈ ہیں، الٹ پلٹ اور اتھل پتھل ہو چکی ہیں۔

آج سیاست میں ہمارا کام یہ تلاش کرنا نہیں ہے کہ سچ کیا ہے بلکہ یہ تلاش کرنا ہے کہ وہ سچ کیاہے جو ہمیں درکار ہے۔ اس وقت ’کشور حسین شاد باد‘ آفت زدہ اور مصیبت زدہ ہے لیکن اس مصیبت سے نکلنا تو درکنار یہاں تو اس کے بار ےمیں غور و فکرہی ناپید ہے اور یہی ہماراا لمیہ ہے۔ ارباب اختیار کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں، کوئی مطلب نہیں کہ 45فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے آگرے ہیں، دووقت کی روٹی کی بات تو چھوڑیئے انہیں دن میں ایک بار بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا اور یہ طے ہے کہ آدھے سے زائد آبادی اگر بھوکے پیٹ ہو تو کسی بڑی طاقت کے اس پر غالب آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

صورت احوال یہ ہے کہ وطن عزیز اندر سے پلپلااور کمزور ہوچکا ہے۔ وہ ملک جہاں غربت بے روزگاری، رشوت ستانی، لوٹ مار، قتل و غارت، دہشت گردی، فرقہ واریت، مذہبی جنونیت اور سماجی تانے بانے کو ادھیڑتی جارہی ہو وہاں کچھ بھی بعید نہیں ،ہم دیار غیر میں رہنے والے لوگ مغربی اقوام کی اٹھنے والی انگلیوں کی تعداد تک نہیں گن سکتےکہ حکمران ملک اور اس کے عوام کی قیادت یا حفاظت نہیںبلکہ اپنے اقتدار اور مفادات کی حفاظت کررہے ہیں، اپنی غربت اور ملک کے غریبوں کو مٹا رہے ہیں،نظم و نسق کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے، روزمرہ کے مسائل تشویش ناک ہوتے جارہے ہیں، نت نئے مسائل،عوامی زندگی کو نت نئی الجھنوں سے دو چار کررہے ہیں کہ جہاں وسائل نہ ہوں وہاں مسائل پہ مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مسائل چھیڑنا،مسائل پیدا کرنا، مسائل کا رخ پھیرنا، اصل مسائل کو دبانا،وسائل (جیسے برے بھلے ہوں) کے باوجود نئے نئے اور پیچیدہ مسائل پیدا کرنا اور جو مسئلہ نہ ہو اسے مسئلہ بناکر پیش کرنا حکمرانوں کا خاص فن ہے ورنہ ملک اور معاشرے کے اصل مسائل وہی ہیں جن کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں اور جنہیں دبانے کیلئے مصنوعی مسائل پیدا کئے جارہے ہیں ،اگر مصنوعی یا جعلی مسائل پیدا نہ کئے جائیں تو حقیقی مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے لہٰذا مسائل دبانے یا پیدا کرنے کے فن کا استعمال کچھ لوگوں کی اپنی فروخت ہے اور شدید ضرورت ہے۔

جیساکہ میں نے ابھی اوپر لکھا ہے کہ ہمارا کام یہ تلاش کرنا ہے کہ وہ سچ کیا ہے جو ہمیں درکار ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ نظریئے سےوابستگی ہی میں وصف ہے جس کے ذریعے برائیوں کو خوف زدہ کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں دورِ حاضر ’’اقدار‘‘ کا نہیں ’’اقتدار ‘‘کاکارنامہ ہے جس پر ہمیشہ حکمراں’’قابض‘‘ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اقدار اس دھرتی سے منہ موڑ چکی ہیں ، جہالت، تعصبات،انتہا پسندی، استحصال، مذہی جنونیت، توہمات، لوٹ مار، ڈاکے اور قتل کا سورج ایک دیوتا بن چکا ہے اور یہ دیوتا سوا نیزے پر بھی آسکتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین وہ بد قسمت دھرتی ہے جس کے بار ے میں اس کے بچے بالے آج تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ اسے کیا بننا ہے ؟ اس دھرتی پر گھر بسانے کیلئے کن اقدار کی ضرورت ہوگی اور یہ کیسا پاکستان ہوگا؟

پاکستانی ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جو جو بے مہار اور غیر مشروط ہے پاکستان کی سیاست کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے کہ یہ بھی اسی ملک کی پیداوار ہے، سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے،یہ عجیب میدان ہے کہ اس میں نہ کوئی فعل مکروہ سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی اصول قائم رکھا جاتا ہے۔ کیا ہم جنگل کے قانون یا جنگل راج میں جی رہے ہیں؟ کیا ہم ایک مہذب سماج کا حصہ نہیں ہیں؟ پاکستان نیو کلیئر طاقت ہے لیکن امن و امان کے حوالے سے وہ تھرڈ ورلڈسے بھی تعلق رکھتا دکھائی نہیں دیتا۔میری رائے میں ملک کے استحکام کو باہر سے نہیں(جس کیلئے ایٹم بم بنایا گیا ہے) اندر سے خطرات لاحق ہیں، گزشتہ چند برسوں کے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ حکومت اورادارے دہشت گردی سے نمٹنے میںمکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئے۔ دہشت گرد جب اور جہاں چاہیں دھماکے کرجاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اصل مجرم کون ہیںاور ان کے منصوبے کیا ہیں۔

میرے حساب سے آج ہمیں جن حالات کا سامنا ہے وہ بیرونی دشمن سے تصادم نہیں بلکہ وہ تصادم ہیں جو جہالت،بے حسی،بے روزگاری اور عدم برداشت کے سبب پیدا ہوئے۔ پاکستان میں عوام کو اتنا مارا، رگڑا، پیسا، روندا اور بھینچا گیا ہے کہ وہ بے چارے جدھر اور جیسا راستہ ملے منہ اٹھائے چل دیتے ہیں جیسے ہم دھرتی کے بیٹے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنے لئے جگہ نہ پاکر وہ گلی ہی چھوڑ گئے جس کا راستہ ’’اقتدار‘‘ کی ہائی وے سے ملتا تھا۔ سو ہم اس سے جدا ہوکر ملکوں ملکوں ہجرت کرتے رہتے ہیں، ایک ماں وہ جس نے ہمیں جنم دیا اور ایک ماں دھرتی جس نے ہمیں پالا پوسا اور اونچ نیچ سکھائی، دونوں ایک دن خالی ہاتھ رہ جاتی ہیں کہ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتیں وہ بچے ان کی گود،ہاتھ اور سائے کو جلد چھوڑ جاتے ہیں۔؎

میں راہِ عشق کا تنہا مسافر

کسے آواز دوں کوئی نہیں ہے

تازہ ترین