آج ذاتی اُداسی اور قومی پریشانی کے ماحول میں موضوع کی تلاش میں بیٹھا قلم خلا میں گھما رہا تھا کہ سپہ سالار عزیزم سید عاصم منیر کے سبز پاکستان کی پیش قدمی بارے سیمینار میں تقریر کی شہ سرخی نے توجہ مبذول کرلی کہ معاشی استحکام کے بغیر مکمل خود مختاری ممکن نہیں جس کیلئے قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ سپہ سالار نے جو عقدہ کھولا بھی تو اس میں’’معاشی عدم استحکام‘‘عنقا کیوں ہے کا جواب تشنہ ہے۔ اور قوم کو متحد کرنے کی ضرورت بجا ہے، لیکن باہم دست وگریباں منقسم قوم متحد ہو تو کیسے کا جواب بھی شفاعت کا متمنی ہے۔ ابھی ڈرا ڈرا اس بارے سوچ ہی رہا تھا کہ ہفتہ ہی کو ڈان میں سیاسی معیشت دان ثاقب شیرانی کے ہوش کُشا کالم بعنوان’’عظیم خود فریبی‘‘پہ نظریں اٹک گئیں۔ شیرانی نے گویا فریب کا عقدہ کھول کر رکھ دیا۔ شیرانی نے تیکھا سوال اُٹھا یا ہے کہ کیا پاکستان کی موجودہ زبوں حالی کی بنیادی وجہ معاشی بے حالی ہے۔ یا پھر یہ کہ معیشت کی دگرگوں حالت کی اصل وجہ پاکستان کا طرز حکمرانی ہے۔ ستتر برس سے جاری مال/کرایہ خور اشرافیہ کی حکمرانی ہوتے ہوئے بھلے طرز حکمرانی آمرانہ ہو یا جمہوری اس سےفرق پڑنے والا نہیں۔ اس ضمن میں چین، جنوبی کوریا اور سنگاپور کے آمرانہ سیاسی ماڈل کی ترقی کی زبردست مثا لیں دیتے ہوئے یہ نہیں بھلانا چاہئے کہ درجنوں پسماندہ ممالک آمرانہ طرز حکمرانی کے ترقی کے ماڈل سے فیضیاب نہ ہو پائے۔ شیرانی نے آمرانہ ماڈل کی کامیاب اور ناکام مثالوں کے پیچھے جو وجہ تلاش کی ہے وہ یہ ہے کہ کامیاب آمرانہ یا جمہوری ماڈل کے پیچھے ایک ایسی اشرافیہ ہے جو شمولیتی (Inclusive) کردار کی حامل ہے جبکہ ناکام آمرانہ ماڈل کے پیچھے مال/کرایہ خور اشرافیہ (Extractive Elite) کا کردار ہوتا ہے جو تبدیل ہونے کو تیار نہیں کہ خود اصلاحی اسکی خصلت سے لگا نہیں کھاتی۔ ایک طرح کے خود کش (Entropy) نظام حکمرانی کی ناکامی کا بوجھ صرف معیشت کی خرابی،اشرافیہ کے عدم اتفاق، معاشی میثاق کے نہ ہونے یا سیاستدانوں کی ناکامی پہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ نکمے اداروں کے ہجوم میں کسی ایک ادارے کی بلا شرکت غیرے قومی فعالیت پہ انحصار سے مسائلستان کے آمرانہ حل کے ایوبی، ضیائی، مشرفی نسخوں کاحشر ہم دیکھ چکے۔ 1988 سے 1999 کے دوران سیاسی اسقاط کے تواتر کی دہائی کے بعد 2008تا 2024کے بے مہر جمہوری عبور کی عصمت دری اورہائبرڈحکومتوں کے دوہرے نظام کی عدم پائیداری کے جاری تسلسل سے معاشی استحکام آیا نہ سیاسی چین نصیب ہوا۔ اور شیرانی کے خیال میں مال/کرایہ خور اشرافیہ سے جان چھڑائے بنا اور سیاسی معیشت میں بنیادی تبدیلی لائے بغیر نظام کہنہ میں بنیادی اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔ 2018, 2012 اور 2024 میں عوامی مینڈیٹس کی قربانی پر بنائی گئیں ہائبرڈ حکومتوں کی ناکامی کے بعد حال ہی میں ایک دہائی کیلئے عسکری حمایت سے ٹیکنوکریٹس کے ناکام بنگلہ دیشی ماڈل کی جانب رجوع کی تجویز اس مشکوک مفروضے پہ دی گئی ہے کہ جب سب ادارے گلے سڑے نظام کو طوالت دینے میں ناکام ہوگئے تو پھر سے ٹیکنوکریٹس کی مدد سے ذوقِ خدائی والوں کو کیوں نہ ایک اور موقع دیا جائے۔ اور ایسے سنہری مواقع کئی بار گنوا کر ہم انہیں دوہرانے سے گریزاں نہیں ہیں تو اللہ حافظ ہے!
آرمی چیف سید عاصم منیر صاحب کو جو کچھ اپنے پیشرو سے ورثے میں ملا ہے وہ اُن کی بیڑیاں کیوں بنے۔ پاک فوج نے تو سیاست سے توبہ کی تھی جبکہ اب کسی جامِ ارغوانی کی اُمید بھی نہیں۔ افواجِ پاکستان کیلئے قومی و جغرافیائی سلامتی کو برقرار رکھنا ہی کافی ہے۔ لگتاہے کہ عسکری مداخلت کے ڈانڈے ہر سو پھیل گئے ہیں۔ ضرورت انہیں سمیٹنے کی ہے، مزید پھیلانے کی نہیں۔ حقِ رائے دہی کے سرقہ سے عوام بیگانہ ہو چکے ہیں تو قوم متحد ہو تو کیوں اور کس بنیاد پر۔ اب عدلیہ بھی مداخلت بے جا پہ سراپا احتجاج ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن کا طوفان اس لئے بپا ہے اور تھم نہیں سکے گا کہ مین اسٹریم میڈیا سنسرشپ کے ہاتھوں اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھاہے۔ طاقت کے حد سے بڑھے ہوئے ارتکاز کے اپنے خطرناک مضمرات ہوتے ہیں جبکہ نظام حکمرانی عوامی شمولیت اور حکمران طبقوں کے مابین سیاسی و معاشی میثاق کا متقاضی ہے۔ خوش قسمتی سے مخلوط حکومت میں شامل اقلیتی جماعتیں اکثریتی جماعت (PTI) سے بات چیت کو تیار ہیں، لیکن زخم خوردہ جماعت سیاستدانوں سے نامہ و پیام کو تیار نہیں۔ عمران خان عسکری قیادت سے مکالمہ کرنے اور معاملات طے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو اُنکے آئینی و قانونی حکمرانی کے دعوؤں اور جمہور کی حکمرانی کے اصولوں کی نفی ہے۔ اگر عسکری قیادت ہی نے سیاسی آربٹریشن کرنی ہے تو پھرپارلیمانی سیاست کی نفی اور جمہوریت کی چھٹی کرانے کی ذمہ داری اپوزیشن پر عائد ہوگی۔ بہتر ہوتا کہ سیاست کے اختلافات سیاستدان ہی باہم مل بیٹھ کر حل کرلیتے۔چونکہ معاشی استحکام، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں، سپہ سالار کو قومی اتفاق رائے کی راہ ہموار کرنے کیلئےقومی مفاہمت کی جانب پیش قدمی بارے سوچنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں پارلیمنٹ میں موجود حکمران جماعتوں کا اگر فوج پہ انحصار ہے اور عمران خان بھی عسکری قیادت کی طرف ہی دیکھ رہے ہیں تو فوجی قیادت ہی مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ تو پھر جمہوریت سے توبہ کا گناہ سیاستدانوں کے سر ہی ہوگا۔ اندریں حالات سپہ سالار کو شیرانی کے نسخہ کیمیا سے رجوع کرنے پہ غور کرنا چاہئے۔
(تعزیت:وہ بھی کیا عجب شخص تھا جو شرمندہ اعزازئیے کے باوجود کئی قلموں کا بوجھ اُٹھائے چلتا بنا۔ لیجئے اس کالم نویس کے مہربان اور مارکسی استاد سید تقی کے فرزند ارجمند سید حیدر تقی اپنا دُکھ اور روگِ زندگی بتائے بنا ہی راہ عدم سدھار گئے اور ہمیں خبر ملی بھی تو دیر سے۔ آج جب کالم لکھنے بیٹھا تو ادارتی ریمائنڈر ملا نہ کوئی اصرار۔ شاید حیدر بھائی ہی جنگ کے ادارتی صفحہ سے برادرم سہیل وڑائچ کے بعد آخری وسیلہ تھے جو نہ رہا۔ ایسا متین، اتنا مہذب اور کھرا شخص ڈھونڈے سے مشکل ملے۔ جوار رحمت کا حقدار اس سے زیادہ کون ہوگا۔)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)