کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ 76سالہ تاریخ میں ملکی معاملات زیادہ تر اگر فوج کے ہاتھ میں رہے تو اس میں سیاستدانوں کا بھی کوئی قصور ہے ؟ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہتے رہے ۔ ڈیڈی پھر کہاں یہ برداشت کرتاہے کہ بیٹا اپنی مرضی کرتا پھرے۔ اس کے باوجود بعد ازاں بھٹو سب سے بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن کر سامنے آئے۔ اپنے سیاسی حریفوں پہ انتقام کی ننگی تلوار لے کر پل پڑے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں یحییٰ خان تو ظاہر ہے کہ قصوروار تھا ہی مگر بھٹو بھی ، جو جیتے ہوئے شیخ مجیب الرحمٰن کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑے ہو گئے ۔رہا شیخ مجیب الرحمٰن توآج یہ بات سب مانتے ہیں کہ جیتے ہوئے شخص کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا تو کیوں وہ علیحدگی کی تحریک چلاتا ۔
بے نظیر بھٹو نے وکلا تحریک کے نتیجے میں پرویز مشرف کے لڑکھڑاتے ہوئے اقتدار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے این آر او لیا ۔ رہا مشرف تو آئین روند نے والے سے کیا شکوہ زرداری صاحب کے خلاف جب تحقیقات شروع ہوئیں تو جنرل راحیل شریف کو مخاطب کر کے انہوں نے یہ کہا : تین سال بعد تمہیں چلے جانا ہے ، ہم نے ہمیشہ رہنا ہے ۔ بزدل اتنے کہ طویل عرصے کے لئے دبئی چلے گئے ۔ آج اسٹیبلشمنٹ کے دستِ شفقت تلے پی ڈی ایم اتحاد میں موجود ہیں ۔ انتخابات آئینی مدت سے آگے بھی نکل جائیں تو انہیں کوئی گلہ نہیں ۔
میاں محمد نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کی آغوش میں سیاسی جنم لیا۔ بعد ازاں ہر دفعہ جب وزیرِ اعظم بنے تو اپنا ایک تابعدار آرمی چیف لگانے کی کوشش کرتے رہے ۔ یہ سپنا انہوں نے کئی بار دیکھا اورزندگی نے مہلت دی تو آئندہ بھی دیکھیں گے ۔ جنرل باجوہ سے انہیں شکوہ تھا کہ چیف جسٹس کے حکم پر ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے جوڈیشل کمیشن میں کیوں بھیجے ؛لہٰذا ان سے پوچھتے رہے ’’مجھے کیوں نکالا؟ ‘‘ آج کل پی ڈی ایم کے ہراول سپاہی ہیں ۔ عمران خان کی جگہ اگر میاں محمد نواز شریف گرفتار ہوتے تو پہلی فرصت میں عالمی ضامن ڈال کر کب کے باہر نکل چکے ہوتے ۔عمران خان نے گو جنرل مشرف اور جنرل قمر باجوہ کے ساتھ ڈیل کی ۔ 2018ء کے الیکشن سے قبل انہوں نے فوج کے سامنے سرنڈر کر دیا ۔ان کے اس فیصلے سے بھی سیاست میں فوج کا کردار راتوں رات کئی گنا بڑھ گیا ۔اصولا انہیں باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن سے انکار کر دینا چاہئے تھا۔ یہ بات البتہ قابلِ صد تحسین ہے کہ جنرل مشرف اور آج کی اسٹیبلشمنٹ نے جب انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا تو ہر تکلیف برداشت کی ۔
جنرل قمر باجوہ نے ایکسٹینشن لینے کا فیصلہ کیا تو مردِ حر آصف علی زرداری اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی فریاد کرنے والے قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف نے ان کا یہ فیصلہ سر آنکھوں پہ رکھا ۔ یہ وہ جماعتیں تھیں ، مشرف کے دور میں جنہوں نے میثاقِ جمہوریت پہ دستخط کئے تھے۔ اس کے باوجود ان کی آنکھوں کے سامنے ایک سیاسی جماعت اور ایک سیاسی لیڈر کو ذبح کر دیا گیا مگر ان کی پیشانی پہ شکن تک نہ آئی۔
ایم کیو ایم تواولاد ہی اسٹیبلشمنٹ کی ہے ۔ اے این پی کو مولانا فضل الرحمٰن نے ایک مرتبہ مرا ہوا سانپ قرار دیا تھا ۔ اب سانپ اور جوگی دونوں اسٹیبلشمنٹ کے در کے بھکاری ہیں ۔
مذہبی سیاسی جماعتوں نے افغانستان پہ امریکی حملے کے خلاف سیاسی اتحاد بنایا۔ دو صوبوں میں حکومت بنائی اور پھر فوجی حکمران کی چاکری کر لی۔ متحدہ مجلسِ عمل کو پرویز مشرف کی بی ٹیم کہا جاتا تھا۔ وردی پوش جنرل کو صدر رہنے کا اختیار بخشنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔
چوہدری برادران پرویز مشرف کی اے ٹیم تھے ۔ آج پتہ نہیں کیسے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی نے مشرف کو دس بار وردی میں صدر منتخب کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ چوہدری صاحب کی استقامت ایک اور وجہ سے بھی میری آنکھوں میں کھٹک رہی ہے ۔ عمران خان جب یہ بیانیہ بنا رہے تھے کہ جنرل قمر باجوہ نے امریکی ایما پر ان کی حکومت رخصت کی تو پرویز الٰہی یکایک ان پہ پل پڑے ۔ کہا کہ جنرل باجوہ کے احسانات یاد رکھیں ۔ عمران خان کے لئے یہ بے حد شرمندگی کا لمحہ تھا کہ پرویز الٰہی ان کے واحد اتحادی تھے ۔پرویز الٰہی آج کیونکر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہیں ، یہ ایک معمہ ہے ۔ چوہدری برادران وگرنہ وردی پوشوں کی موجودگی میں سانس بھی احتیاط سے لیتے ہیں ۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
سیاسی جماعتوں کو ہوش ہی نہیں ۔ انتخابات اگر نوے دن میں نہ ہوئے تو کھیل ختم ہوجائے گا ۔اس کے بعد الیکشن مقتدر حلقوں کی مرضی سے کبھی کبھار ہوا کریں گے اور وہ بھی برائے نام۔ جمہوریت ہوگی مگر اتنی ہی جمہوریت ، جس سے عالمی برادری کو یقین دلایا جا سکے کہ پاکستان میں مارشل لا نافذ نہیں۔ سنجی گلیوں میں ویگو پھرے گی۔