سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی کئی شقیں کالعدم قرار دے دیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی اس بینچ کا حصہ ہیں۔
اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل آخری دن چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ لیڈیز اینڈ جنٹلمین، دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنا رہے ہیں۔
فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے نیب کی تمام ختم انکوائریز اور کیسز بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کر دیے اور کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابلِ سماعت قرار دی جاتی ہے۔
50 کروڑ روپے کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کر دیے گئے ہیں اور تمام کیسز نیب عدالتوں اور احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قراردے دیے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 50 کروڑ روپے کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دے دی گئی، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم بھی کالعدم قرار دے دی گئیں۔
فیصلے کے مطابق تمام ختم انکوائریز اور کیسز بحال کیے جاتے ہیں، نیب 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں میں بھیجے، پلی بارگین سے متعلق کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے مطابق نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابلِ سماعت قرار دی جاتی ہے، سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق برقرار رکھی گئی ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے مفادِ عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے۔
فیصلے کے مطابق نیب ترمیم کے سیکشن 5 سے متعلق ترامیم کو سول سرونٹس کی حد تک برقرار رکھا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے ماضی کے اطلاق کی شق بھی کالعدم قرار دے دی۔
نیب ترامیم 2022ء میں چیئرمین نیب کے تقرر کا اختیار قومی اسمبلی و سینیٹ کو دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کیریئر کا آخری فیصلہ سنا کر سپریم کورٹ سے روانہ ہو گئے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال ترامیم کیس کا فیصلہ سنانے کے فوری بعد روانہ ہوئے۔
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاءبندیال نے عملے سے الوداعی ملاقات بھی کی۔
نیب ترامیم کے خلاف سماعت کے لیے 15 جولائی 2022ء کو خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
نیب ترامیم کے خلاف چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا۔
خصوصی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور شامل تھے۔
نیب ترامیم کے خلاف کیس کی پہلی سماعت 19 جولائی 2022ء کو ہوئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے نیب ترامیم کے خلاف 184/3 کی درخواست دائر کی۔
نیب ترامیم کے خلاف درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26 میں کی گئی ترامیم آئین کےمنافی ہیں، سیکشن 14، 15، 21 اور 23 میں کی گئی ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ نیب قانون میں یہ ترامیم آرٹیکل 9، 14، 19 ،24، 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی کہ نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عدالتِ عظمیٰ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر 53 سماعتیں کیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے نیب ترامیم کے خلاف دلائل دیے۔
وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترامیم کے حق میں دلائل دیے۔
آخری سماعت پرچیف جسٹس نے معاونت کرنے پر تمام فریقین کا شکریہ ادا کیا اور ریمارکس دیے کہ ’شارٹ اینڈ سویٹ‘ فیصلہ دیں گے۔
آخری سماعت پر چیف جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ سنانے کا کہا تھا۔
آخری سماعت پر اٹارنی جنرل بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت دی تھی۔