مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کو سپریم کورٹ کے 29 ویں چیف جسٹس کے منصب کا حلف اٹھالیا جو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جگہ لیں گے۔ ان سے صدر عارف علوی نے ایک پروقار تقریب میں حلف لیا جس میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، چاروں صوبائی گورنر، نگران وزرائے اعلیٰ بعض سابق ججوں اور دوسری ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ حلف برداری کے موقع پر نئے چیف جسٹس نے ماضی کی کئی روایات توڑ ڈالیں اور کئی نئی خوشگوار اور منفرد روایات قائم کیں۔ پہلے تو انہوں نے صدر مملکت کی اجازت سے اپنی شریک حیات محترمہ سیرینا عیسیٰ کو سٹیج پر بلا کر اپنے ساتھ کھڑا کرلیا اور تاریخ رقم کردی یہ ایک پیغام تھا کہ اپنے حق کے لئے اگر شریک حیات کو اپنا ساتھ دیتے ہیں تو کامیابی یقیناً آپ کا مقدر بنے گی۔ دوسری اچھی روایت انہوں نے یہ قائم کی کہ حلف نامہ انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی پڑھا۔ صدر دونوں زبانوں میں حلف کے الفاظ پڑھتے رہے اور قاضی صاحب دہراتے رہے۔ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن میں سینئر ججوں کو نامزد کرنے کے علاوہ پہلی بار ایک خاتون جج کو عدالت عظمیٰ کا رجسٹرار مقرر کردیا۔ نئی رجسٹرار جزیلا اسلم اس سے قبل سیشن جج اوکاڑہ تھیں اور سب سے سینئر شمار ہوتی تھیں، عدالت میں ان سے قبل قومی اسمبلی اور سینٹ کا منظور شدہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل زیرالتوا تھا اور ایک مختصر بنچ نے اس پر اسٹے آرڈر دے رکھا تھا۔ اس کی سماعت کے لئے پیر کا دن مقرر تھا۔ نئے چیف جسٹس نے اس اہم بل کی سماعت کے لیے پندرہ ججوں پر مشتمل فل بینچ مقرر کردیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی اور لوگوں کو ٹی وی چینلوں پر ججوں کے سوالات اور ریمارکس سننے کا موقع ملا۔ قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے اور ان کے والد قاضی محمد عیسیٰ پاکستان میں قائداعظم کے رفیق خاص تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف انہی صدر مملکت نے لیا جنہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران ان کے خلاف اثاثوں کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور ریفرنس دائر کیا تھا۔ قاضی صاحب نے اپنے خلاف سازش کا تن تنہا مقابلہ کیا اور کامیابی سے الزامات کا دفاع کیا جس میں ان کی اہلیہ کا بھی بنیادی کردار تھا۔ نتیجتاً ریفرنس ناکام ہوگیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج سپریم کورٹ کئی مشہور کیسوں کے فیصلے صادر کئے جن کے اثرات دیر تک محسوس کئے گئے۔ ان کے بے باکانہ فیصلوں کی وجہ سے انہیں کئی اہم کیسوں سے دور رکھا گیا۔ ملک اس وقت جس سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، عدالت عظمیٰ کے سامنے کئی پیچیدہ مقدمات آسکتے ہیں۔ خاص طور پر عام انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے جو نئے چیف جسٹس اور فاضل ججوں کی قوت فیصلہ کا امتحان ہوگا۔ ماضی قریب میں سیاسی نوعیت کے کیسوں کی بھرمار کی وجہ سے عام مقدمات غیر معمولی تاخیر کا شکار چلے آرہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں سیاسی کیسوں کے فیصلے کرتی رہی ہیں ان پر عمل نہ ہوسکا جس سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی۔ قانونی ماہرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ نئے چیف جسٹس کی آمد سے سپریم کورٹ روایتی نہیں رہے گی۔ شکایت کا ازالہ ہوگا اور نئے کیسوں کے ساتھ التوا میں پڑے ہوئے لاکھوں مقدمات کے بھی فیصلے ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی نئے چیف جسٹس کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری ہوگی، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ سپریم کورٹ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے لئے آخری امید ہے اور عوام نئے چیف جسٹس اور فاضل جج صاحبان کی انصاف پروری پر پورا یقین رکھتے ہیں۔