• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں انصاف گمشدہ ہوئے 70 سال ہونے کو ہیں۔پوری قوم انصاف کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھا رہی ہے۔انہیں انصاف تو آج تک نہیں مل سکا البتہ اس کی بدروحوں سے جا بجا ملاقات ہوتی رہتی ہے۔شاہراہ دستور پر واقعہ سفید سنگ مرمر سے مزین ایک بڑی عمارت انصاف فراہم کرنے کی غرض سے تعمیر کی گئی تھی لیکن نہ تو شاہراہِ دستور پر دستور نظر آتا ہے اور نہ ہی اس بڑی عمارت میں انصاف سے ملاقات ہو پاتی ہے۔ کئی مرتبہ تو سپریم کورٹ کی سفید سیڑھیاں انصاف کے خون سے رنگین ہوئی ہیں۔میں یہاں پر اشرافیہ کی بات نہیں کر رہا۔کیونکہ ان کے لئے تو قوانین ہی مختلف ہیں۔ان کا مزاج برہم ہو تو رات کے 12 بجے بھی مزاج سنوارنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے،اشرافیہ کے کسی رکن کی طبیعت پر ناروا بوجھ پڑے تو سزا یافتہ ہونے کے باوجود باقی سزا بیرون ملک بھگتنے کی سہولت بھی دی جاتی ہے،اشرافیہ نیب کی قید سے ایوان اقتدار تک پہنچ جاتی ہے،ان کےلئے تو انصاف زمان و مکاں کی قید کے بغیر ہر وقت آراستہ و پیراستہ دلہن کی صورت دستیاب ہو جاتا ہے،میں تو عام آدمی کی بات کر رہا ہوں یہ عام آدمی جو ہر پانچ سال بعد انصاف کی امید میں ووٹ کی پرچی پر ٹھپا لگاتا ہے،یہ عام آدمی جلسوں میں اوے آئی آوے اور زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتا ہے،یہ عام آدمی آٹے اور چینی کے لئے میلوں لمبی قطاروں میں کھڑا ہوتا ہے،لیکن اس کے مقدر میں انصاف کہاں، اسے تو تاریخ پہ تاریخ ملتی ہے۔اب عام آدمی اس تبدیلی سے بے نیاز ہو چکا ہے کہ شاہراہ دستور پر واقع ''قصر ابیض'' میں آج کل کون انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر فائز ہے۔وہ اس غم سے بھی بے نیاز ہے کہ عدلیہ تقسیم ہے یا متحد ہے۔اسے اس امر میں بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ کسی آئینی گتھی کو سلجھانے کے لئے فل کورٹ بیٹھتا ہے یا ڈویژن بنچ سماعت کرتا ہے۔وہ تو اس انصاف کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے جو قیام پاکستان کے فورا بعد ہی یہی کہیں گم ہوا تھا لیکن اب ملنے کا نام نہیں لے رہا۔یہاں انصاف کے رکھوالوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی پہ چڑھا دیا۔اس عمارت سے منتخب وزرائے اعظم نااہل اور جلا وطن ہوتے رہے۔لیکن نہ تو منصفین کے ماتھے پر عرق ندامت ظاہر ہوا اور نہ کبھی ادارہ جاتی طور پر پشیمانی کا اظہار کیا گیا،پوری دنیا میں ججز اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں لیکن آج ٹی وی چینلز کے ٹکر کے ذریعے بولتےہیں،آج قاضی فائز عیسیٰ ایک ایسی سپریم کورٹ کے سربراہ بنے ہیں جو اندرونی تقسیم سے دوچار ہے،جس کی ساکھ پر کئی سوالیہ نشان ہیں،جس کے ماتھے پر جانبداری کا دھبہ ہے،جس کے تہہ خانوں میں 50ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں،ایک ایسی عدلیہ جہاں ماتحت عدلیہ کے حالات اور بھی برے ہیں،ججز کے لئے کام کرنے کے حالات ناقابل بیان ہیں تو دوسری طرف انصاف کے بکنے کی بھی سرگوشیاں زبان زد خاص و عام ہیں ان حالات میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیا کردار ادا کر سکیں گے۔؟کیا قاضی محمد عیسیٰ کے فرزند جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گمشدہ انصاف کی تلاش میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے؟تحریک پاکستان کے رہنما کے صاحبزادے کیا پاکستانی عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لئےٹھوس اقدام کر سکیں گے؟کیا سپریم کورٹ کے آئینی احکامات پر ان کی روح کے مطابق عمل ہوگا یا ان کا حشر بھی 14 مئی والے فیصلے جیسا ہوگا؟کیا اس درگاہ پر سیاست دان ہی ذبح ہوتے رہیں گے یا خود عدلیہ بھی اپنا احتساب کر سکے گی؟یہ وہ سلگتے ہوئے سوالات ہیںجوآج ہر پاکستانی شہری کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں؟۔جسٹس صاحب حدیبیہ پیپر ملز کا فیصلہ بھی لکھ چکے ہیں۔فیض آباد کا معرکہ آرا فیصلہ بھی انہی کے قلم کا شاہکار ہے۔جسٹس بندیال کے دور میں چند ماہ چیمبر ورک کرنے کے بعد آج وہ ساتھی ججز کےلئے کس طرح کے کنڈکٹ کا مظاہرہ کریں گے یہ وقت بتائے گا۔13 ماہ کےلئے اس منصب جلیلہ پر متمکن ہونے والے محترم قاضی فائز عیسیٰ یقینا اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ ان سے قبل28چیف جسٹس اس کرسی پر متمکن ہو چکے ہیں۔ان میں جسٹس منیر،جسٹس انوار الحق،جسٹس محمد حلیم،جسٹس جاوید اقبال،جسٹس عبدالحمید ڈوگر،اور جسٹس عمر عطا بندیال جیسے لوگ بھی گزرے ہیں ان میں سے بعض لوگوں کے نام تو محاوروں میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور وہ محاورے خوش کن نہیں،اسی ادارے میں جسٹس اے ار کارنیلیس،جسٹس حمود الرحمن،جسٹس رانا بھگوان داس،جسٹس درا ب پٹیل،اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم جیسے لوگ بھی گزرے ہیں جن کا نام لیں تو ہر قانون دان احترام سے اپنا سر جھکا لیتا ہے۔90 روز کے انتخابات ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے۔اگر وہ اپنا نام روشن کردار ججز میں لکھوانا چاہتے ہیں تو انہیں مقررہ وقت میں انتخابات یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے لئے فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہونگے اس کا فیصلہ 13 ماہ بعد ہوگا۔

تازہ ترین