• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نو اور دس ستمبر کو جی 20-کا اجلاس نئی دہلی میں منعقد ہوا جس میں یورپین یونین کے ساتھ دنیا کی19بڑی معیشتوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے افریقن یونین کو بھی اس فورم کا ممبر بنا لیا گیا جبکہ چین اور روس کے سربراہوں نے اس میں شرکت نہ کی۔ اس فورم کی ایک خاص خبر ہندوستان، عرب ممالک اور یورپ کو ملانے کیلئے ایک اکنامک کوریڈور کا اعلان تھاجس کو اسپائس (مسالہ جات) روٹ کا نام دیا گیا۔ یہ پروجیکٹ دراصل چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے مقابلےمیں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ روٹ وسطِ ایشیا، عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان رابطے کا بھی ذریعہ بنے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اکنامک روٹ برکس اور ایس سی او کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو کم کرنے کیلئے بنایا جا رہا ہے کیونکہ برکس نے بڑی تعداد میں امریکہ نواز تیسری دنیا کے ممالک کو بھی اپنا ممبر بنا لیا ہے جس میں خاص طور پر ارجنٹائن اور افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ یوں چین اور روس کے اس بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کیلئے مجبور ہو کر افریقن یونین کوجی 20کا ممبر بنایا گیا ہے۔ حالانکہ امریکہ اور یورپین ممالک کی افریقہ پر مظالم کی داستان بہت لمبی ہے۔ حیر ت کی بات یہ ہے کہ پاکستان نہ تو جی 20-میں شرکت کیلئے بلایا گیا اور نہ ہی وہ سی پیک سے فائدہ اٹھانے میں سنجیدہ نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ 1964ء میں تیسری دنیا کے مظلوم ممالک کا G-77(NAM) ایک فورم بنایا گیا تھا جس کے بانی ممالک میں انڈیا بھی شامل تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فورم کی سربراہی کانفرنس کیوبا میں منعقد ہوئی حالانکہ ہندوستان کا شمار اس فورم کے بانی ممالک میں ہوتا ہے لیکن مودی نے جان بوجھ کر اس اجلاس میں شرکت نہ کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مودی نے سارک فورم کو بھی تقریباً غیر متحرک کر دیا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان آہستہ آہستہ اپنے آپ کو تیسری دنیا کے ممالک سے نکال کر امریکی تسلط کے تحت چلنے والے امیر ممالک کے فورمز میں شامل کر رہا ہے۔

ان تمام تضادات کے باوجود اس کانفرنس کا موٹو بہت انقلابی ہے یعنی ’’ایک دھرتی، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ حالانکہ یہ موٹو مودی کی ہندوستان کے مسلمانوں، کشمیریوں اور دوسرے اقلیتی گروپوں سے ناروا پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ معروف دانشور ارون دھتی رائے نے جی 20کانفرنس اور مودی کی بھارت میں مسلمان دشمنی کو اس کانفرنس کے موٹو سے متصادم قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود دنیا میں بسنے والے آٹھ ارب لوگوں کیلئے ایک دھرتی اور ایک خاندان کا تصور جن کا مستقبل بھی سانجھا ہو، بہت بڑا انقلابی نعرہ ہے۔ انگلینڈ کے معروف شاعر الفریڈ ٹینی سن نے 1837ء میں اسی قسم کا ایک خیال دیتے ہوئے پوری دنیا کو ایک فیڈریشن بنانے کا تصور دیا تھا اور اس کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ کو لوگوں کی پارلیمنٹ یعنی ’’پارلیمنٹ آف مین‘‘ قرار دیا تھا۔ وہ دنیا بھر کے شہروں کو بموں سے تباہ ہوتے دیکھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ یہ وہ وقت ہوگا جب ساری قومیں مل کر اس دنیا کو ایک قوموں کی فیڈریشن میں تبدیل کر دیں گی۔ ٹینی سن کے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی آج جتنی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ آج دنیا کے ممالک تقریبا ًدو ٹریلین ڈالر ہر سال ہتھیار خریدنے اور بنانے پر خرچ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جنگ عظیم میں ایک سو پچھتر ملین لوگ مارے گئے تھے۔

انسانی ارتقاء کی یہ نمایاں خصوصیت رہی ہے کہ اس کا طرز عمل فطری جبلتوں کی بجائے معاشرتی تربیتوں سے متعین ہوتا ہے۔ اس کے باوجود مغربی دنیا کے سائنسدانوں نے جانوروں پر تجربے کر کے انسان کی فطرت کا سراغ لگانے میں دن رات ایک کر دیا ہے۔ دراصل یہ سائنسدان جن میں ڈیسمنڈ مورس، آرڈی اور کانریڈلارنز قابل ذکر ہیں اور سونے پر سہاگہ گارنریڈ لارنز کو نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا، ان کا کہنا ہے کہ جنگ و جارحیت دراصل انسان کی فطری جبلتوں کا اظہار ہے ۔مغربی ممالک میں ان سائنسدانوں کی کتابوں کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔ آج یورپ اور امریکہ کی ترقی اور اس کے عروج میں تمام تہذیبوں کی علمی، ادبی اور ثقافتی شراکت موجود ہے ۔ یاد رہے کہ یورپ کے عروج سے پہلے بھی ایک عالمی اقتصادی نظام سن 1400سے سن 1800تک اس دنیا میں اپنا وجود رکھتا تھا۔ ہندوستان میں کپڑے کی صنعت اور چین میں سلک، سیرامک، چائے، سونے اور چاندی کے سکے اور زرعی پیداوار کافی زیادہ ہوتی تھی حالانکہ اس وقت یورپ کے پاس برآمدات نہ ہونے کی وجہ سے نقد ادائیگی کیلئے کچھ نہیں تھا۔ یورپ، مشرقی صنعتی پیداوار کو اس وقت خریدنے کے قابل ہوا جب اس نے امریکہ سے چاندی کی لوٹ مار کی۔ یوں امریکی چاندی اور مشرقی ٹیکسٹائل نے یورپ کو اس کی پسماندگی سے نکالا اور انگلستان کے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے بعد اٹھارویں صدی میں ہندوستان کے کپڑے کی صنعت کازوال ہوا۔ معروف تاریخ دان آئی۔ ڈی۔ لاش دلائل سے ثابت کرتا ہے کہ یورپ کے سرمایہ دار بننے میں امریکہ کی دریافت سے زیادہ مشرق سے مسالوں کی تجارت کا رول ہے۔ شاید اسی تاریخی حوالے سے G-20کے اعلامیہ میں ہندوستان اور یورپ کے درمیان اکنامک کوری ڈور کا نام اسپائس (مسالہ جات) روٹ رکھا گیا ہے۔ جنگ و جدل، نت نئے ہتھیاروں کی ایجادات اور ماحولیاتی تباہ کاریوں نے انسان کے مستقبل کو مخدوش کر دیا ہے۔ آج جی 20کے موٹو کو عملی جامہ پہنانے کی سخت ضرورت ہے کہ آٹھ ارب لوگ نہ صرف امن و خوشحالی سے زندگی گزار سکیں بلکہ دنیا میں فوجوں اور ہتھیاروں کا مکمل قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ پیرس کے ماحولیاتی معاہدے پر بھی سختی سے عمل کروایا جا سکے۔

تازہ ترین