• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈیا میں ہونے والے جی ٹونٹی اجلاس نے خطے کی سیاست کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس نے دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں کے سربراہان کو اپنے ہاں اکٹھا کر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مقابلے میں انڈیا، مڈل ایسٹ اور یورپ کو ملانے والے اکنامک کوریڈور کا منصوبہ لانچ کر کے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ اکنامک کوریڈور انڈیا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، یورپی یونین، فرانس، اٹلی، جرمنی اور امریکہ کے مابین باہمی رابطے اور بنیادی ڈھانچے پر تعاون کا اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے۔ اس سےنہ صرف انڈیا کو خطے کی تجارت میں مزید اہمیت حاصل ہو گی بلکہ اسے امریکہ، یورپ اور افریقہ کی بڑی معاشی طاقتوں کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے امیر عرب ممالک کے ساتھ اپنے کاروباری رابطے مزید مضبوط کرنے کا موقع بھی ملے گے۔ اس سلسلے میں انڈیا کے وزیر اعظم نے جی ٹونٹی اجلاس کی سائیڈ لائنز پر کچھ معاہدے بھی کئے ہیں جن کے مطابق انڈیا کے دو لاکھ افراد کو سعودی عرب میں ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔ علاوہ ازیں انڈیا نے ترکی سے ڈرون خریدنے کا ایک بڑامعاہدہ کیا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم دوست عرب ممالک کے پاکستان میں سرمایہ کاری کے وعدوں کا جائزہ لیں تو ان پر تاحال عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا ۔ جی ٹونٹی اجلاس میں پیش کئے گئے اکنامک کوریڈور کے مجوزہ منصوبے کے مطابق اس میں 45 ممالک شامل ہیں جنہیں سمندر، ریل اور سڑک کے راستے آپس میں جوڑا جائے گا۔ اس منصوبے کا مقصد شریک ممالک کے اقتصادی رابطوں کو بڑھانا، بنیادی ڈھانچے کو بہتر اور اپ گریڈ کرنا اور تمام فریقین کے درمیان تجارت کو فروغ دینا ہے۔ یہ منصوبہ قابل اعتماد سرحد پار ڈیٹا ٹرانسمیشن کیبلز سمیت بجلی اور ہائیڈروجن کی برآمد اور درآمد کیلئے پائپ لائنوں کو بھی وسعت دے گا تاکہ عالمی توانائی کی فراہمی کو محفوظ بنایا جا سکے۔

اس اقتصادی روٹ کا آغاز انڈیا سے ہونا ہے اس لئے لا محالہ جی ٹونٹی ممالک کی طرف سے انڈیا میں سرمایہ کاری میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گا۔ اس سلسلے میں امریکہ اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے ایم او یو سائن کر کے فریم ورک کی تیاری پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ جی ٹونٹی تنظیم میں امریکہ، چین ،روس، جاپان، برطانیہ، انڈیا، یورپی یونین، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اندونیشیا، اٹلی، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور ترکی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں حالیہ جی ٹونٹی اجلاس میں انڈیا نے بنگلہ دیش، مصر،نائجیریا،متحدہ عرب امارات،عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشیئس کے سربراہان کو بھی مہمان کے طور پر مدعو کرکے اس اجلاس کو ایک عالمی سربراہی فورم میں تبدیل کر دیا تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سفارت کاری کے میدان میں انڈیا نے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور موجودہ حالات میں ایک طرح سے انڈیا نے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین اور روس کو بھی عالمی ا سٹیج پر کارنر کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ہمارے لئے اس تلخ حقیقت کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اب اقتصادی میدان میں بھی انڈیا نے پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔دونوں ممالک کے اقتصادی حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جبکہ انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 575 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انڈیا نے اقتصادی ترقی کیلئے تعلیم، ٹیکنالوجی اور انڈسٹریلائزیشن کے حوالے سے طویل المدت پالیسیاں تشکیل دے کر ان پر عمل درآمد جاری رکھا ہوا ہے۔ وہاں پر سیاسی جماعتوں میں اختلافات کے باوجود سیاسی استحکام اور جمہوری حکومتوں کا تسلسل قائم ہے جبکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے اختلافات ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے سی پیک جیسے گیم چینجر پروجیکٹ کو بھی آغاز سے ہی متنازع بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں اور دس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ مکمل نہیں کیا جا سکا۔ اگر یہ منصوبہ اپنی مقررہ معیاد میں مکمل ہو چکا ہوتا اور چین سے ری لوکیٹ ہونے والی انڈسٹری سی پیک کے تحت بننے والے ترجیحی سپیشل اکنامک زونز میں پیدواری عمل شروع کر چکی ہوتی تو آج پاکستان کی معاشی حالت اس قدر دگرگوں نہ ہوتی بلکہ پاکستان اس اقتصادی راہداری کے ذریعے خطے کے دیگر ممالک کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ٹول ٹیکس اور دیگر خدمات کی فراہمی سے ہی سالانہ اربوں ڈالر کما رہا ہوتا۔ موجودہ حالات کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ اب چین اور روس بھی خاموش اور نرم سفارت کاری کی بجائے کھل کر سامنے آئیں اور پاکستان ان کے ساتھ مل کر سی پیک کے منصوبے کو پوری رفتار اور مزید سرمایہ کاری کے ساتھ تیزی سے مکمل کرے۔ کاروبار کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ نئی منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنائے بغیر کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ علاوہ ازیں سی پیک کو انڈیا اور جی ٹونٹی ممالک کے مجوزہ اقتصادی راہدری پر یہ اسٹریٹجک برتری بھی حاصل ہے کہ اس پر کافی حد تک پیشرفت ہو چکی ہے اور یہ خطے کے دیگر ممالک تک رسائی کے حوالے سے زیادہ موزوں ہے۔ اس لئے اگر اسے پوری رفتار سے آگے بڑھایا جائے تو یہ اپنی تکمیل اور آسان ذرائع آمد ورفت کے باعث عالمی تجارت کا اہم روٹ بن سکتا ہے۔

تازہ ترین