• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز پاکستان میں کرپشن کے نظام کا خاتمہ اور مافیاز کو لگام ڈالنا از حد ضروری ہے۔ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ظلم کے نظام کے خاتمہ کیلئے عدل کا ترازو بلند کریں گے۔ اس وقت ملک و قوم کو اچھے اور ایماندار لوگوں کی تلاش ہے۔ہر شعبہ میں مخلص اورمحب وطن قیادت ہی پاکستان کو درپیش مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں نے جس طرح عوام کو ذلیل و رسوا کیا، معاشی قتل عام کیا اور غریب عوام پر مسلسل مہنگائی کے نشتر چلائے، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔آئی ایم ایف کے غلاموں نے اداروں کو گروی اور قوم پر قرضوں کے پہا ڑ کھڑے کر کے انھیں زندہ درگور کر دیا ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ بجلی چوروں سے وصولی کا ہدف 589ارب ہے مگر صرف 4ارب 60کروڑ روپے وصول ہوئے ۔ حکومت اپنے ہی لگائے گے تخمینے کا ہدف پورا کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ نگران حکومت کا کام صرف صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کا انعقاد کرنا اور اقتدار منتخب حکومت کے سپرد کرنا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ جس طرح نگران حکومت مسلسل مہنگائی میں اضافہ کر رہی ہے اس کا راستہ نہ روکا گیا تو حالات سنگین تر ہو جائیں گے۔ افسر شاہی کی سرکاری مراعات بھی قومی خزانے پر بھاری بوجھ ہیں۔ ہر سال اربوں روپے مراعات کی نذر ہو جاتے ہیں، ہر دور حکومت میں سرکاری افسران کی مراعات پر کٹ لگانے کی بجائے اضافہ کر دیا جاتاہے۔ موجودہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی سرکاری افسران کی مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کے فیصلے سے پیچھے ہٹ کر واضح کر دیا ہے کہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا کوئی احساس نہیں ہے۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہوش ربامہنگائی نے عوام کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ترین مرحلہ بنا دیا ہے۔ نوجوان بے روزگار ہو کر جرائم کی دنیا میں جا رہے ہیں، ہر شخص پریشان ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت چاند پر پہنچ گیا جبکہ ہمارے حکمرانوں کے اللے تللے ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ملک کے دیگر علاقوں کی طرح پنجاب کے سرکاری ادارے بھی لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے نا دہندہ ہیں۔واسا 7 ارب، ٹائون میونسپل اتھارٹی 3 ارب،پنجاب ایری گیشن اینڈ پاور ڈپارٹمنٹ 59کروڑ، محکمہ ریلوے 53 کروڑ، لاہور رنگ روڈ اتھارٹی کے ذمے 50 کروڑ، لاہور کی ضلعی حکومت 49 کروڑ،محکمہ صحت 42 کروڑ روپے جبکہ محکمہ پولیس کے ذمے 43 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ان سے واجبات ہی وصول کر لئے جائیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مگر یہ کام ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ ملک میں بدترین مہنگائی کی حالیہ لہر اور معاشی بحران کے باعث عوام اب روزمرہ کی ضروریات، مثلاً بجلی کے بل، اسکول کی فیس، مکان کا کرایہ اور دیگر اخراجات پورے کرنے میں سخت مشکلات کا شکار ہیں۔صاف شفاف انتخابات ہی پاکستان میں جاری بحران کا حل ہیں۔ملک میں تمام ادارے معاشی بحرانوں کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ پی آئی اے کا خسارہ 12ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا سکے۔ ملک وقوم کو آگے لے کر جانا ہے تو پہلے سیاسی استحکام کی طرف جانا ہو گا۔ داخلی انتشار اور اضطراب کی کیفیت ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت عوام کی زندگی کو مسلسل اجیرن بنا رہی ہے،مہنگائی،بے روزگاری اور کرپشن ونااہلی نے قوم کو بد حال کر دیا ہے المیہ یہ ہے کہ اقتصادی بحران جنم لے رہا ہے اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو معیشت کو سنبھالنا مشکل ترین ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم نے صرف انتقامی سیاسی کارروائیوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ معاشی بحرانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے سیاسی اختلافات کو بھلا کرقومی مفادات کو مدنظر رکھا جائے۔ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ہمارے حکمرانوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ رواں سال ترقیاتی بجٹ کا صرف51فیصد استعمال کیا جا سکا ہے۔ متعد د اہم منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ ارباب اقتدارکے پاس قابلیت، اہلیت،صلاحیت کے ساتھ ساتھ ترجیحات کی کمی اور وژن کا فقدان ہے۔یوں لگتا ہے کہ جیسے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں کی طرح موجودہ نگران حکومت بھی عوام کو درپیش مسائل اور ان کے حل سے لا تعلق ہو چکی ہے۔ کرپشن کے خاتمہ کے لیے نیب کی خود ساختہ ترامیم کو کالعدم قرار دے کر قومی دولت لوٹنے والوں کیخلاف تمام مقدمات کوبحال کر نا خوش آئند اقدام ہے۔ اس اقدام سے 7وزرائے اعظم سمیت کرپشن کے 2027مقدمات بحال ہونگے۔جس کسی نے بھی قومی دولت کو لوٹا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی ادارے میں بیٹھا ہو، اس کا احتساب ہونا چاہئے۔ مگرپریشان کن بات یہ ہے کہ نیب کو ہر دور حکومت میں اپنے سیاسی مخالفین پر مقدمات قائم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ نیب کوسیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ملک میں خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت کی پالیسیوں سے ملک میں بے یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے۔مزدوروں کی عالمی تنظیم آئی ایل او کے مطابق بھی پاکستان کی لیبر مارکیٹ اب تک عالمی وبا کورونا وائرس اور معاشی بحران سے مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی اور اس سال بے روزگار افراد کی تعداد 56 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اگر حکومت نے اپنی معاشی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لے کر عوام کو ریلیف فراہم نہ کیا تو ملازمتوں میں کمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری پاکستان کی پیش رفت کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دے گی۔ 98فیصد پاکستانی ملکی سمت سے خوش نہیں جبکہ66فیصد پاکستانی ملکی معاشی حالات میں اگلے 6 ماہ میں بھی بہتری کے لئے پر امید نہیں ہیں۔60فیصد پاکستانی مستقبل میں اپنے مالی حالات مزید کمزور دیکھ رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین