• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دہائی قبل ٹی بی سے متاثرہ ملکوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر تھا لیکن 2014 کے بعد سے مسلسل پانچویں درجے پر ہے اور ہر سال اس کے 50 ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ ہورہے ہیں۔ اس کے باعث ہونے والی اموات کی شرح دیگر امراض کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ اعدادوشمار انتہائی باعث تشویش اور متعلقہ اداروں سے مؤثر مہم پر کاربند ہونے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ٹی بی ایک متعدی مرض ہے اور اس کے مریض کے کھانسنے سے خارج ہونے والا جرثومہ قریب بیٹھے افراد میں سانس کے ذریعے منتقل ہوکر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے،نتیجتاً مسلسل بخار رہنا، بھوک نہ لگنا، وزن میں کمی اور نقاہت مریض کا مقدر بن جاتی ہے۔ مرض کی تشخیص کیلئے مریض کے بلغم کا ٹیسٹ اور پھیپھڑوں کی ایکسرے رپورٹ معالجین کی رہنمائی کیلئے موزوں ترین سمجھی جاتی ہے۔ طبی ماہرین اسے سو فیصد قابل علاج قرار دیتے ہیں ۔ غذائیت اور قوت مدافعت میں کمی سے دوچار افراد ٹی بی کا جلد شکار ہوجاتے ہیں اور یہی دونوں عوامل یعنی مکمل غذا اور قوت مدافعت اس کی بحالی میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں البتہ معالج کی تجویز کردہ ادویات کا دی گئی ہدایات کے عین مطابق استعمال بہرحال ناگزیر ہوتا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد جو دو برس قبل 33 فیصد تھی، 40 فیصد سے متجاوز ہوچکی ہے۔ کئی کئی افراد کے کنبے ہوا اور روشنی سے محروم صرف ایک ایک کمرے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دیہی علاقوں میں وہیں بھیڑ بکریاں اور دیگر پالتو جانور بھی باندھے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ٹی بی دنیا میں اموات کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔ٹی بی کے خلاف کام کرنے والے ادارے زیادہ تر مریض کے علاج معالجے پر توجہ دیتے ہیں ۔ تاہم مرض کو جڑ سے اکھاڑنے اور صحت مند معاشرے کیلئے دیگر عوامل کا ہونا بھی اسی قدر ضروری ہے۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین