• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور میں میکلوڈ روڈ پر پہلے پاور ہائوس کے آثار ہم نے تو 1975ء تک دیکھے تھے۔ اس کے بعد وہ بھی بے قدروں کی نذر ہوگئے۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں لاہور میں بجلی کی آمد کا ذکر کیا تھا بجلی کی سپلائی کا کام لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کرتی تھی، کمپیوٹر کی غلطی سے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین کا نام لالہ ہرکشن لال کی جگہ لالہ لکشمن شائع ہوگیا تھا۔ لاہور میں بجلی کے بارے میں روزنامہ پیسہ اخبار کی ایک خبر کے مطابق پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر لوئیس ڈین نے پاور ہائوس کو اپنے ہاتھ سے چلایا یا کھولا تھا۔ لاہور میں جولائی 1912ء کو بجلی دینا شروع کیا گیا اور اس کی تقریب گول باغ (کمپنی باغ، ناصر باغ) میں 25جولائی کے بعد کسی روز منعقد ہوئی تھی۔ شاید قارئین کو یاد ہو کہ گول باغ کے عین درمیان میں ایک سڑک گزرتی تھی جو لوئر مال اور مال روڈ کو ملایا کرتی تھی۔ ہم نے اس سڑک پر بارہا سفر کیا بلکہ لاہور اومنی بس سروس کی بسیں بھی اس سڑک سے گزرا کرتی تھیں۔ لاہور میں تاریخی گول باغ ہے جہاں بھٹو نے ایوب خان کی حکومت کے خلاف ایک بہت بڑا جلسہ کرنے کی کوشش کی تھی تو ایوب خان کی حکومت نے گول باغ میں پانی چھوڑ کر اس میں ڈی سی کرنٹ چھوڑ دیا تھا چنانچہ لوگ اپنی جوتیاں تک چھوڑ کروہاں سے بھاگے تھے۔ ڈی سی کرنٹ سے انسان کی موت واقعے نہیں ہوتی البتہ جھٹکا اچھا خاصا ضرورلگتا ہے، بھٹو نے ایک رکشا میں سوارہو کر ڈاکٹر محمد اجمل مرحوم پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور کے گھر جا کر پناہ لی تھی۔ہم نے اپنےا سکول میں کلاس ششم سے کلاس ہشتم تک ڈی سی بجلی کا کام اپنے انتہائی شفیق استاد حاجی مقبول الرحمان مرحوم سے سیکھا تھا۔ ابھی دو چار سال پہلے تک وہ ہم سےجنگ اخبار کے آفس ملنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ خیر آج کی نسل کو چھوڑیں بجلی کا کام کرنے والوں کو بھی علم نہیں کہ ڈی سی بجلی کیا ہوتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں لوگوں نے شروع کے چند برسوں میں بجلی لگوانے میں اتنی تیزی نہیں دکھائی تھی، بہت ہی کم لاہوریئے یہ جانتے ہوں گے کہ انگریزوں کے دفاتر، جی او ار ون اور صاحب حیثیت لوگوں نے اپنے بنگلوں اور حویلیوں میں لکڑی کے بڑے سے ڈنڈے کے ساتھ بہت بڑا سا موٹا کپڑا نتھی کیا ہوتا تھا اور ایک مضبوط رسی ایک گول چرخی جو دیوار پر نصب تھی۔ اس چرخی کے ذریعے اس دروازے کی چوکھٹ کے اوپر سوراخ کر کے باہر برآمدے میں آتی تھی وہاں ایک دربان یا پنکھا قلی کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر اس رسی کو جب کھینچتا اور چھوڑتا تو یہ کپڑے والا پنکھا پورے کمرے کو ہوا دیا کرتا تھا۔ ہم نے خود 1966ء میں چواسیدن شاہ پنڈدادن خان کے مائیننگ کے ریسٹ ہائوس میں ایسے پنکھے دیکھے تھے اور چواسیدن شاہ کے ریسٹ ہائوس میں دو دن قیام بھی کیا تھا جہاں بجلی نہیں تھی کیا پنکھا تھا اورقلی اس پنکھے کو چلایا کرتے تھے ہم نے چند برس قبل تک مہاراجہ پونچھ کی لاہور کی حویلی (جس پر اب کئی سرکاری محکموں نے قبضہ کر رکھا ہے) کے برآمدے میں خود ایسی چرخیاں لگی ہوئی دیکھی تھیں۔ گورا ہمیشہ تاریخ، تاریخی عمارتیں اور قدیم چیزوں کو محفوظ کرتا ہے جبکہ ہمارے محکمہ پی ڈبلیو ڈی والے ہر پرانی عمارت کو گرانے پر لگے ہوئے ہیں کیونکہ اس میں دیہاڑی لگتی ہے، دیہاڑی لگانے کے چکر میں لاہور میں کئی خوبصورت تاریخی عمارتوںکو پی ڈبلیو ڈی والوں نے زمین بوس کر دیا اور ان جگہوں پر بدنما اور ناقص میٹریل سے بدترین عمارتیں کھڑی کر دیں۔ ظاہر ہے حصہ تو نیچے سے اوپر تک ہر کسی کو جاتا ہے لاہور میں بجلی سرکاری محکموں کو چار آنے اور عوام کو چھ سے آٹھ آنے یونٹ مہیا کی جاتی تھی اور صرف ایک سو گیارہ برس میں بجلی کا ریٹ آج فی یونٹ 70روپے کے قریب ہے۔ لالہ ہرکشن لال کے بعد لالہ ملک راج بھلہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین بنے۔ بجلی کے آنے سے قبل اور اس کے کچھ عرصہ بعد تک بھی لاہور میں پنکھا قلی کی بڑی مانگ تھی کیونکہ یہ خاصا محنت طلب کام تھا۔ لاہور میں فوج کی یونٹوں، گھروں اور دفاتر میں یہ کپڑے والے پنکھے ہوتے تھے اگر پنکھا قلی کو رسی کھینچتے کھینچتے اونگ آ جاتی تھی تو گورا افسر اس قلی کو گولی بھی مار دیتا تھا۔ اس کا ذکر ہم نے لاہور کے پرانے اخبارات میں پڑھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1912ء میں بھی یہ حالات تھے کہ بجلی کبھی آتی تھی اور کبھی چلی جاتی تھی۔ سو ایک سو گیارہ برس میں بجلی کی سپلائی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس زمانے لوگ بجلی کا بل جمع کرانے خود پاور ہائوس کے دفتر جایا کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ بہت بڑے بڑے بجلی کے میٹر ہوا کرتے تھے۔ جس میں ایک گول رنگ جس کے اوپر لال رنگ کا نشان ہوتا تھا وہ بجلی کے استعمال کے وقت گھوما کرتا تھا۔ لاہور میں کبھی بجلی کے پول پر پہلے ساٹھ اور سو واٹ کے پیلی لائٹ والے بلب لگائے گئے پھر ٹیوب لائٹ آگئیں۔ بجلی کے بلب اور ٹیوب لائٹ والے پول ہم نے خود دیکھے ہیں کیسی خوبصورت لائٹ لگا کرتی تھی پھر تیز روشنی والے سفید اور ہلکی نیلی روشنی پھینکنے والے بلب آگئے ان کے اوپر بڑا خوبصورت شیشے کا خول ہوا کرتے تھے۔ ارے کیا نظارہ لاہور کا ہوتا تھا۔ لارنس گارڈن میں یہ سفید اور نیلگوں روشنی والے بلب ایک عجیب کمال پیش کیا کرتے تھے۔ بجلی آنے سے قبل لاہور میں کھمبوں پر تیل کے لیمپ ہوا کرتے تھے۔ ایک شخص روزانہ ان تیل کے لیمپوں میں تیل ڈالتا، دوسرا شخص ان کو دیاسلائی سے جلاتا تھا پھر صبح سویرے اس طرح ان تیل کے لیمپوں کو بجھایا جاتا تھا۔ پرانے لاہوریوں جنہوں نے ہمیں کبھی اس بارے میں بتایا تھا، کہتے تھے بڑا دلچسپ نظارہ ہوتا تھا۔ ایک شخص کندھے پر چھوٹی سے لکڑی کی سیڑھی لے کر آرہا ہوتا تھا، دوسرے شخص کے ہاتھ میں تیل کا بڑا سا ڈبہ ہوتا تھا۔ خیر یہ باتیں تو اب کب کی ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔(جاری ہے)

تازہ ترین