پکا ارادہ تھا کہ نہ سیاست پر بات کروں گا اور نہ ہی مایوسی کو موضوع بناؤں گا۔ آدھا خالی کی بجائے آدھا بھرا ہوا گلاس دیکھوں گا۔ مگر کیا کروں چاروں اطراف سے متفکر اور مایوس کن صدائیں آ رہی ہیں۔ کوئی اشاریہ مثبت دکھائی نہیں دیتا، کوئی گراف بلند ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ ہر کالم نگار خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ ہر ذی شعور فکرمند ہے۔ ایسے میں بتائیے میں اکیلا کتابی نصابی باتیں کر کے کب تک اپنا اور آ پ کا دل بہلاؤں ؟ خطرہ دیکھ کر ایک کبوتر تو آنکھیں موند سکتا ہے مگر انسان نہیں۔ مگر افسوس کہ ہم تو کبوتر سے بھی گئے گزرے ہیں۔ بلی کے آنے پر بھی نہ صرف آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں بلکہ اعلان فرما رہے ہیں’’ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے‘‘ یعنی کوئی خطرہ نہیں۔ یہ جملہ صرف موجودہ نگران وزیراعظم صاحب نے ہی نہیں فرمایا بلکہ اس سے قبل بھی تمام حکومتی زعما یہی فرماتے رہے ہیں کہ ملک اس وقت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ روایت کو جاری رکھتے ہوئے نگران وزیراعظم نے بھی اقتدار میں آ کر یہی بھاشن سنادیا۔ وزیراعظم شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں ان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ بلوچوں کو ان سے بہت توقعات ہیں۔ بیچارے عوام کی توقعات ہیں ہی کتنی ؟ پنجرہ پل سے شروع ہوتی ہیں اور پنجرہ پل پر ختم ہو جاتی ہیں۔ خیر پنجرہ پل کی تعمیر کا حکم تو وزیراعظم صاحب نے صادر فرما دیا ہے کیا ہی اچھا ہو کسی طرح کچھ ایسا کر جائیں کہ بلوچوں کا احساس محرومی ختم ہو اور وہ قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ موضوع کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے بھی حکومتی نصاب کی کسی کتاب میں درج جملہ پڑھ کر سنا دیا ہے کہ ملک اس وقت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ جی حضور ہم کب کہہ رہے ہیں کہ ملک مضبوط ہاتھوں میں نہیں ہے۔ یہی ہاتھ تو مضبوط ہیں جنہوں نے 75 سال سے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہاتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں اور ملک کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بیچ بیچ میں ہمیں یہ بھی باور کراتے ہیں کہ ملک اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے۔ اس کے باوجود مجال ہے جو کبھی خود متفکر ہوئے ہوں ، کبھی اس مسئلے پر اسمبلی کے ایوانوں میں سر جوڑ کر بیٹھے ہوں کہ کس طرح وینٹی لیٹر سے جان چھڑائی جائے ؟ کبھی اس موضوع پر بھی گول میز کانفرنس بلائی ہو کہ وطنِ نحیف کی سانسوں کو رواں رکھنے کیلئے کیا کرنا ہے ؟ کبھی اس پر بحث کی ہو کہ قومی مسائل کا مستقل حل کیا ہونا چاہیے ؟ ہر حکومت آئی ایم ایف سے آکسیجن کا سلنڈر ادھار پکڑتی ہے اور مریضِ بے کس و لاچار کو لگا کر کچھ وقت کیلئے حیات بخش دیتی ہے اور ساتھ ہی اپنی کامیابیوں کے ڈھول پیٹنا شروع کر دیتی ہے۔ اس ڈنگ ٹپاؤ یعنی(Temporary ) پروگرام میں
وطن کی کمزوری تو دور نہیں ہو پاتی تاہم مضبوط ہاتھ اپنے ہاتھوں کو مزید تگڑا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انہیں تگڑا کرنے میں عالمی مالیاتی ادارے بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ان اداروں نے کبھی پاکستان میں کرپشن پر اعتراض نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سبھی مضبوط ہاتھ ہر وقت اقتدار میں ہوتے ہیں اور یہ مضبوط ہاتھ باہم ایک دوسرے کے ہاتھ بھی مضبوط کرتے رہتے ہیں۔ ان مضبوط ہاتھوں کا دائرہ کار اس قدر وسعت اختیار کر چکا ہے کہ جو کبھی اقتدار کے ایوانوں تک محدود تھا اب مقتدر اداروں تک پھیل چکا ہے اب آپ کو یہ مضبوط ہاتھ ہر طرف ہر جگہ مافیاز کی صورت میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ مضبوط ہاتھ ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اس سے آپ ان ہاتھوں کی مضبوطی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہی شکلیں وہی بیانات وہی طفل تسلیاں...! میری عمر اس وقت 60 برس ہو چکی ہے اس دوران میں نہ جانے کتنی مرتبہ ملک میں چینی کا بحران دیکھ چکا ہوں ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی وزیراعظم نے چینی سمگلنگ میں ملوث حکام کے خلاف کارروائی کا حکم صادر فرما دیا ہے ۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی یہی ہوگا کہ مضبوط ہاتھوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا نتیجے کے طور پر چینی مزید مہنگی ہو جائے گی اور بس....! تیس برس گزر گئے اب کہیں سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں آئی پی پیز کی وجہ سے بجلی مہنگی ہو رہی ہے ، بندہ پوچھے اگر یہ معاہدے عوام دشمن ہیں تو کیا کبھی اسمبلی کے فلور پر معاہدے کرنے والوں سے باز پرس ہوئی؟ بالکل نہیں ہوئی اس لیے کہ مضبوط ہاتھوں پر کون ہاتھ ڈالے؟ یہی مضبوط ہاتھ یعنی بجلی چینی کے تاجر ایوانوں اور وزارتوں میں گھسے بیٹھے ہیں جن کے آہنی ہاتھوں میں پیارا وطن پاکستان ہے۔ یہ ملک چاہے مزید کمزور ہو جائے ان مضبوط ہاتھوں کو کوئی پروا نہیں ان کے لیے یہ سب کھیل تماشے ہے اورانہی کیلئےاپنے کاروبار سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ تمام تر مایوسی کے عالم میں بھی اگر کوئی روشنی کی کرن ہے تو وہ یہ کہ الحمدللہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اس لیے نہیں کہ ہمارے پاس کوئی سُپر سونک میزائل ہیں یا ہم سورج پہ کمند ڈال چکے ہیں بلکہ اس لیے کہ جس جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت سے افواج پاکستان لیس ہے وہ کسی اور ملک کی فوج کا طرہ امتیاز نہیں۔ جو قوم مرنے کے لیے لڑتی ہے وہی زندہ رہتی ہے۔ یہی خوف دشمن کو پاکستان سے دو بدو لڑائی لڑنے سے روکے ہوئے ہے جبکہ سازشوں کے ذریعے پاکستان پر آئے دن حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ان سازشوں میں ایک یہ بھی ہے کہ جن مضبوط ہاتھوں نے پاکستان کی گردن دبوچ رکھی ہے انہیں مزید مضبوط بنا کر ہچکی تک بند کر دی جائے۔آخری جملہ.... خدا خیر کرے۔