• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کو صدر ڈاکٹر عارف علوی نے مایوس کیا۔ پہلے یہ بات خان صاحب کے وکیل شیر افضل کے ذریعے سامنے آئی اور پھر چیئرمین تحریک انصاف کی ہمشیرہ علیمہ خان نے یہی بات کی۔ 

عمران خان کی مایوسی کی وجہ صدر علوی کی طرف سے الیکشن کی تاریخ نہ دینا تھا۔ 

تحریک انصاف کو توقع تھی کہ صدر اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوے نوے دن کے اندر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیں گے لیکن ڈاکٹر علوی نے ایسا کرنے سے گریز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہی صدر کے اختیار اور اس بارے میں قانونی اختلاف رائے کا حوالہ دے کر الیکشن کمیشن پر ہی تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور اگر ضرورت پڑے تو سپریم کورٹ کے مشورے سے انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کا کہہ دیا۔ 

صدر کی طرف سے الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط محض ایک مشورے سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور لگ ایسا رہا تھا کہ یہ بے معنی خط صدر علوی نے تحریک انصاف کے دباؤ پر ضرور لکھا لیکن وہ اصل میں الیکشن کی تاریخ دے کر نہ تو کوئی نیا تنازع پیدا کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی طاقت ور حلقوں کو ناراض کرنا چاہتے تھے۔ 

ایک وقت ایسا تھا جب یہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ صدر علوی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ اُسی دوران صدر سے دو طاقت ور شخصیات نے ملاقات کی جس کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ ڈاکٹر علوی اب انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کریں گے ۔ 

عمران خان کو صدر علوی نے مایوس کیا لیکن سچ پوچھیں تو صدر کیلئے 9 مئی کے بعد تحریک انصاف اور عمران خان کی خواہشات کے مطابق چلنا ممکن نہیں رہا۔ 

موجوہ حالات میں اگر وہ آنکھیں بند کر کے تحریک انصاف کے اشاروں پر چلتے ہیں تو پھر اُن کیلئے بھی مصیبتیں پیدا ہوسکتی ہیں اور ایوان صدر میں اُن کا رہنا بھی مشکل ہوسکتا ہے۔ 

خان صاحب کی ہمشیرہ کے مطابق عمران خان جیل میں کافی کمزور ہو گئے ہیں لیکن اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کی اہلیہ نے خطرے کا اظہار کیا کہ چیئرمین تحریک انصاف کو خوراک کے ذریعے زہر دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں خوش نہیں۔ 

عمران خان کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ خان صاحب کو ایک لمبا عرصہ تک جیل میں رکھنےکا جو بندوبست کیا جارہا ہے وہ یقینا ًعمران خان اور اُن کے خاندان کے افراد کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ 

جیل میں عمران خان سوچتے تو ضرور ہوں گے کہ اُن سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اُن کو اُن کی پارٹی کے رہنما سمجھاتے رہے کہ اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد فوج مخالف جو بیانیہ اُنہوں نے بنایا اُس سے اُنہیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہوگا ۔ 

9 مئی کے بعد خان صاحب اور تحریک انصاف کیلئے مشکلات بڑھتی گئیں اور ان مشکلات میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ایک طرف عمران خان کے خلاف کیسوں کا انبار اور لمبے عرصہ کی جیل تو دوسری طرف تحریک انصاف کیلئے انتخابی سیاست کے راستہ کی بڑھتی رکاوٹیں۔ 

چند ماہ پہلے تک عمران خان کے پاس شاید یہ آپشن موجود تھا کہ وہ خود کو کچھ عرصہ کیلئے مائنس کر کے اپنی سیاسی جماعت کی انتخابی سیاست کو بچا لیتے لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اب خان صاحب کے پاس یہ آپشن بھی موجود نہیں۔ 

صدر سمیت دوسروں سے مایوس یا خفا ہونے کی بجائے خان صاحب اپنے رویے، اپنے فیصلوں اور اپنے بیانیے پر غور کریں تو ممکنہ طور پر یہ اُن کیلئے بہتر ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین