ایک حقیقت تو سب تسلیم کرتے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد میں جتنی تاخیر ہوتی ہے۔ اس سے ملک میں پھیلا انتشار اتنا ہی سنگین ہوتا رہتا ہے۔ صرف ستمبر ہی ستم گر نہیں ہوتا۔ ہم پر تو اکتوبر نے بھی بہت ستم ڈھائے ہیں۔ پہلے وزیر اعظم ،قائد اعظم کے دست راست۔ اپنا سب کچھ پاکستان کیلئے وقف کردینے والے لیاقت علی خان پنڈی میں 16اکتوبر کو شہید کر دیے گئے۔ پہلا مارشل لا 7اکتوبر1958کو لگا۔ آخری مارشل لا 12اکتوبر 1999کو۔ پھر آج کے دن ہی 2005 کا زلزلہ۔ جس نے ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں سے زندگی چھین لی۔ اور اب یہ 2023 کا اکتوبر۔
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
ہمیں جس طرح کی اذیتوں اور چیلنجوں کا سامنا ہے اس میں راہ نجات صرف اجتماعی فکر، اجتماعی قیادت اور اجتماعی فیصلوں میں ہوتی ہے۔جیسے 1965میں بھارت کی جارحیت پر صدر جنرل ایوب خان نے سارے اپوزیشن لیڈروں کو مشاورت کیلئے بلایا۔ پھر نائن الیون کے نازک وقت میں صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی سب سیاسی جماعتوں سے، ایڈیٹروں سے معاشی ماہرین سے ملاقاتیں کیں۔
آج کا بحران بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ ملک کے سارے اعلیٰ دماغوں کو اکٹھے بیٹھنا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہر پاکستانی فکر مند ہے کہ اس کڑے امتحان سے سرخرو ہوکر کیسے نکلیں۔ ملک میں منتخب جمہوری حکومت ہوتی تو پارلیمنٹ یہ ذمہ داری نبھاتی۔ آئین نے تو الیکشن کی ایک مدت مقرر کر رکھی ہے کہ 90دن کے اندر اندر الیکشن ہوں اور عوام کی اکثریت جس جماعت کو بھی مینڈیٹ دیتی ہے۔ وہ اپنے ارکان پارلیمنٹ، اپنے اقتصادی، آئینی، تعلیمی ماہرین کی ٹیمیں بناکر اس بحران کا بتدریج خاتمہ کرے۔ جہاں جہاں ملکی سلامتی اور ملّی مفادات کا سوال ہو۔ وہاں پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن سے بھی مشاورت کرے۔ ہمارے ہاں ایک طویل عرصے سے سیاسی محاذ آرائی اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ سارے ذہنوں کے مل بیٹھنے کا تصورہی ختم ہوچکا ہے۔ اپنے ہرمخالف کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھا جاتا ہے۔ ڈالر کی اڑان کو بعض قواعد و ضوابط کے ذریعے روکا گیا ہے۔ لیکن اس سے عوام کی اکثریت کے کرب میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں ، نواسوں نواسیوں، بہوئوں اور دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور بہت سی باتیں کرنے کا دن۔ بد حالی پر اظہار خیال کرکے اپنے اپنے گھر کی حد تک ایک روڈ میپ بنایا جاسکتا ہے کہ مہنگائی سے کیسے نمٹنا ہے۔ غیر ضروری اخراجات کیسے کم کرنا ہیں۔ مہنگے پیٹرول کا بہت ضروری اور صرف ناگزیر استعمال۔ ایسے ہنگامی دنوں میں محلے کی اجتماعی ذہانت کو بھی بروئے کار لانا ضروری ہوتا ہے۔ اپنی گلی اور اپنی مسجد سے ملحقہ نمازیوں میں تبادلۂ خیال ہوسکتا ہے۔ محلے کی سطح پر باہمی غور و فکر سے اپنے ہمسایوں کی بہت سی اقتصادی الجھنیں سلجھائی جاسکتی ہیں۔ ایک دوسرے کو بلا سود قرضے دیے جاسکتے ہیں۔ خواتین کمیٹیاں ڈال کر اپنی بعض مالی ضروریات پوری کرسکتی ہیں۔ مختلف حکمراں۔ میڈیا۔ ہم کالم نویس قوم میں یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ انارکی، محاذ آرائی ہمارا مقدر ہے۔
نہیں،نہیں قطعاً ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کو اللّٰہ تعالیٰ نے انتہائی اہم محل وقوع دیا ہے۔ ہماری آبادی 60 فیصد نوجوان ہے۔ اس کے دست و بازو میں توانائیاں ہیں۔ ذہنوں میں بصیرتیں ہیں۔ سوشل میڈیا نے، اسمارٹ فونوں نے نوجوانوں کو اور زیادہ روشن خیالی دی ہے۔ وہ دنیا بھر کے حالات سے واقف ہیں۔ وہ نیٹ پر دیکھتے رہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں نے بحرانوں سے کیسے نجات پائی۔ ان کا عزم ہے کہ دوسری قومیں جو کچھ کررہی ہیں۔ ہم بھی کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 23کروڑ ذہنوں میں جگمگاتی روشنی کا استعمال کیسے کیا جائے۔ نگراں حکومت کا اولیں فریضہ تو پُر امن۔ صاف شفاف آزادانہ انتخابات کروانا ہے۔ تاکہ عوام کا مینڈیٹ حاصل کیا جاسکے اور اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو پورا اقتدار منتقل کرکے سرخرو ہوکر اپنے اپنے گھر جائے۔ آزادانہ الیکشن کے انعقاد کیلئے بھی ضروری ہے کہ سب مل بیٹھیں۔ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو یہ احساس لازمی ہوگا کہ وہ پاکستان جیسی عظیم مملکت کے انتہائی نازک دَور میں اس مسند پر بٹھائے گئے ہیں۔ جہاں شہید لیاقت علی خان بیٹھتے تھے۔ جہاں شہید ذوالفقا رعلی بھٹو رونق افروز تھے۔ جہاں شہید بے نظیر بھٹو فیصلے کرتی تھیں۔ آپ چاہے چند مہینوںکیلئے آئے ہیں ۔مگر تاریخ یہ دیکھ رہی ہے کہ آپ آئندہ کے استحکام کیلئے کیا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کیا آپ کو حالات کی سنگینی کا احساس ہے۔ آپ کی تاریخی قومی ذمہ داری ہے کہ آپ سب سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے خود جاکر فرداًفرداًملیں۔ ان سے رہنمائی حاصل کریں۔ پھر اگر وہ سب آمادہ ہوجائیں تو ایک کُل جماعتی کانفرنس منعقد کرکے قوم کو اور دنیا کو دکھائیں کہ پاکستانیوں میں قوت ارادی موجود ہے اور وہ اپنی عظمت رفتہ واپس لانےکیلئے وژن رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ایوان بالا موجود ہے۔ سینیٹ کو اتفاق سے تمام جماعتوں کی نمائندگی میسر ہے۔ اس کے اجلاس منعقد ہوں۔ وہاں مقامی علاقائی عالمی سیاسی سماجی صورت حال پر سنجیدہ مباحث ہوں۔ اس سے بھی قوم کو یقین ہوسکتا ہے کہ ملک میں ایک سیاسی ڈھانچہ کام کررہا ہے۔اسی طرح ملک کے اکثر حصّوں میں منتخب بلدیاتی ادارے بھی موجود ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر، تجارتی صنعتی مرکز کراچی میں میئر بھی ہیں۔ چیئرمین کونسلرز،بلدیاتی اداروں کو فعال کیا جائے۔ قیمتوں کو قابو میں کرنے کا نظام بلدیاتی حکومتیں قائم کرسکتی ہیں۔ مقامی طور پر پاکستانی اکثریت کو سہولتیں پہنچاکر ان کی مایوسی دور کرسکتی ہیں۔ ان کی آمدنی کے بہت سے وسائل ہیں۔ جو مافیاز کے کنٹرول کے باعث افسروں کی ذاتی جیبوں میں جارہے ہیں۔ بلدیاتی ادارے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ شہر اپنے طور پر بیدار ہورہے ہیں۔ انہیں مصروف کیا جائے۔
معاشی بحران دور کرنےکیلئے غیر ضروری اخراجات میں کمی ناگزیر ہوتی ہے۔ اس کے منصوبے کی تشکیل کی خبر تو آئی ہے لیکن یہ ابھی زیر عمل نہیں ہے۔ شہریوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ مہنگے پیٹرول کا بوجھ بانٹا جاتا ہے۔ ساری گاڑیاں ہر روز نہ نکلیں۔ محلے میں آپس میں طے کرلیا جائے۔ بعض ملکوں میں گاڑیوں کے نمبر کے حساب سے طے کیا جاتا ہے کہ ہفتے میں کونسے نمبر کی گاڑیاں کس کس علاقے میں داخل ہوسکتی ہیں۔یہ گھڑی فیصلے کی گھڑی ہے۔ وقتی عبوری فارمولے نہیں بلکہ قوم کو چاہئے دس پندرہ برس کے بارے میں سوچے۔ ترجیحات کا تعین کرے۔ طاقت ور انتقام کی آگ بجھائیں اس سے معاملات اور الجھ رہے ہیں۔ اداروں اور عہدوں کا احترام ختم ہورہا ہے۔ لسانی اور نسلی تعصبات سر اٹھارہے ہیں۔ پاکستان کو اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا انتشار اور محاذ آرائی کا میدان نہیں بلکہ قوم کو ایک مرکز پر لانے کا فورم بننا چاہئے۔