• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مسلمہ امر ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تین شخصیات اس ملک کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوں گی۔ انہی کے کارہائے نمایاں نے آنے والے زمانے کی تاریخ کا حصہ بننا ہے۔ انہی سے اس ملک کا مقدر وابستہ ہے اور یہی اس وقت اس ملک کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ان میں سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ یہ تقابل مناسب نہیں۔ یہ سب ہی طاقتور ہیں، زور آور ہیں، زبردست ہیں، ان سب کا حلقہ اثر ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہے لیکن کیا کیجیے کہ جب ایک کی ہاں سے کوئی حکم جاری ہوتا ہے تو اس کا بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر دوسرے کے حلقہ ارادت پر پڑتا ہے۔ ایک کا فیصلہ دوسرے کے میدان پر اثر انداز ہوتا ہے۔

پاکستانی تاریخ کے اس حیران کن موڑ پریہ تینوں کردار اہم بھی ہیں اور لازم بھی۔ اب حالات ا س نہج پر آ گئے ہیں کہ ان تینوں میں سے کسی کے پاس ذمہ داریوں سے مفر کی سہولت میسر نہیں۔ایک کا میدان سیاست ہے۔ اس نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے، بہت ظلم برداشت کیے، بہت سے سبق سیکھے۔ وہ اس ملک کی خاطر اپنے پیاروں کی قربانی کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس ملک کے عوام اس کا میدان ہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں میں بستا ہے۔ وہ جب بولتا ہے لوگوں کو یقین آتا ہے۔ وہ مشکل وقت میں سچ بولنے کا ولولہ رکھتا ہے، وہ احترام سے اختلاف کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، وہ ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرتا ہے، وہ پارلیمان کی سپریمسی کا نعرہ لگاتا ہے۔ وہ وزرائے اعظم کی بے وجہ بے دخلی پر نوحہ کناں رہتا ہے، وہ اس ملک کے عوام کی خوشحالی کا خواب دیکھتا ہے، وہ آئین کی حرمت پر یقین رکھتا ہے۔وہ ہائی برڈ نظام کے خلاف بات کرتا ہے، وہ اس ملک کے پرچم کو سربلند رکھنا چاہتا ہے، وہ بھارت سے برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتا ہے، وہ اپنا گھر صاف کرنا چاہتا ہے۔عوام اسکی طاقت رہے ہیں، وہ عوام کا نمائندہ بن کرآج بھی انکے دلوں پر راج کرتا ہے۔دوسرا طاقتور ترین شخص وہ ہے کہ علم جس کی گھٹی میں ہے، وطن سے محبت اس کی سرشت میں ہے۔ اس کے آبانے اس ملک کی آزادی میں خون پسینہ بہایا۔ قانون کی شُد بُد اس نے اپنے محترم والدسے سیکھی۔ وہ والد جو قائداعظم کا دست راست تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا ’لا الہ الا للہ‘ اس کے بچپن کی یادداشتوں میں ثبت ہے۔یہ شخص ملک کے سب سے پسماندہ صوبے سے تعلق رکھتا ہے لیکن محروم طبقات کیلئے ہمیشہ سینہ سپر رہتا ہے، یہ آئین کا محافظ ہے اور قانون کا طالب علم۔ اس نے حق کی خاطر بہت ظلم دیکھے۔ اپنی معزز اہلیہ کو گزشتہ دورِ اذیت میں دفتروں کے چکر کاٹتے اور صفائیاں دیتے دیکھا۔ اس نے عمران خان کے دور جبر کا مقابلہ کیا، اپنی جنگ خود لڑی۔وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ آج انصاف کے سبھی طالب اس کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ آج جمہوریت کا مستقبل اس شخص سے وابستہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس کے ادارے نے ہمیشہ جمہوریت کو تار تار کیا مگر یہ شخص مختلف ہے۔ یہ آئین پامال کرنے والوں کا مخالف اور جمہوریت سے محبت کرنے والوں کا عاشق ہے۔تاریخ کے اس موڑ پر یہ طاقتور لوگوں کی تکون تیسرے شخص کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ شخص فطرتاً سپاہی ہے۔ وطن سے محبت اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ اس نے نعرہ تکبیر کی صداؤں میں آنکھ کھولی۔ وطن کے چپے چپے کی حفاظت اس کے خمیر میں ہے۔یہ دلیر بھی ہے، زیرک بھی، شجیع بھی، باہمت بھی۔ یہ مشکل فیصلے کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ یہ دلیری سے لڑنے کے ہنر سے واقف ہے۔ یہ وطن کی سلامتی پر سمجھوتہ کرنے کا قائل نہیں۔ یہ اس خطہ پاک کی خاطر خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کا قائل ہے ۔ یہ وطن کے دشمنوں پر برق بن کر ٹوٹنے والا ہے۔ اپنی صفوں کا احتساب کرنے والا یہ دلیر گھر صاف کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے، اسے محفوظ بنانے کا حوصلہ بھی اس میں موجود ہے۔یہ وہی شخص ہے جس نے سابق وزیر اعظم کو ان کے گھر والوں کی کرپشن کے بارے میں بتایا تو عہدے سے الگ کر دیا گیا۔ آج وقت نے اسے سپہ سالار کا درجہ دیا۔ آج بہت سے فیصلے اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یہ اپنے عہد کو یادگار بنانا چاہتا ہے، یہ اس وطن کا پرچم سربلند رکھنا چاہتا ہے۔یہ تینوں طاقتور افراد اپنی نوع کے مختلف لوگ ہیں لیکن ان سب میں کچھ مشترکات بھی ہیں۔ ان سب کو عمران خان کے دورمیں کسی نہ کسی طرح عتاب کا نشانہ بننا پڑا۔ یہ تینوں آج کے پاکستان کے طاقتور ترین لوگ ہیں۔ یہ تینوں بحران میں کامران ہونا جانتے ہیں۔ یہ تینوں اپنے اپنے اصولوں پر سمجھوتے کے عادی نہیں۔ یہ اپنے فیصلوں میں اٹل ہوتے ہیں۔ تینوں آئین کی حرمت کے قائل اور تینوں جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ان تینوں کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ’ضد‘ بھی ہے۔ یہ اپنی ضد پر اڑ جانے والے لوگ ہیں۔ یہ نقصان سے بے پرواہو کر فیصلہ کرنے والے لوگ ہیں۔ضد بہت اچھی چیز ہے اگر یہ تینوں اس ضد پر اڑ جائیں کہ پاکستان کو ترقی دینا ہے تو یہ پاکستان کو ترقی دے کر ہی رہیں گے۔ یہ اگر تعمیر پاکستان کو ضد بنا لیں تو شکست و ریخت کی شکار مملکت کو درست سمت پرگامزن کر کے ہی رہیں گے۔ اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ اس ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے تو چاہے جو بھی ہو، یہ لوگ اپنا ہدف حاصل کرکے ہی رہیں گے لیکن اگر ان کی ضد کبھی ان کی انا بن گئی تو یہ تکون مثبت کے بجائے منفی بھی ہو سکتی ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک ضدی اس وقت جیل میں ہے جس نے اپنی ضد میں آ کراس ملک کے وقار، ناموس اور حرمت کو بہت نقصان پہنچایا۔

تازہ ترین