عوامی جمہوریہ چین کے 74ویں یوم تاسیس پر جہاںپاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور اہم شخصیات دونوں ممالک کی لازوال دوستی کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہیں ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے چین آج دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور بن چکا ہے اور ہم دیوالیہ ہونے سےبچنےکیلئے عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ چین نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران غیر معمولی اقتصادی ترقی کا تجربہ کیا ہے، جس سے وہ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک ماڈل بن گیا ہے۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں نظریاتی اختلافات کے باوجود چین سے تعلقات کے معاملے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح چین نے بھی ہر مشکل وقت میں پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔
چین نے پاکستان کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ بھی اسی لئے شروع کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے معاشی تعلقات میں اضافہ کیا جائے۔ 64 ارب ڈالر کی لاگت سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر سنکیانگ کو گوادر سے سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائن کے ذریعے کارگو، تیل اور گیس کی ترسیل کیلئے ملایا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پانے اور لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کرنے کیلئے متعدد بجلی گھر بھی کام شروع کر چکے ہیں جبکہ کچھ دیگر منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔
صنعتی تعاون کے اس منصوبے کا سب سے اہم حصہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بننے والے نو خصوصی ترجیحی اکنامک زونز ہیں جہاں پر چینی کمپنیوں نے صنعتیں لگا کر پاکستان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور روزگار فراہم کرنا ہے۔ ان میں سے چار اکنامک زونز کو فاسٹ ٹریک پر مکمل کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے تحت پنجاب کا واحد اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی فیصل آباد میں بنایا جا رہا ہے جس کا 35 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ رشاکائی اسپیشل اکنامک زون خیبر پختونخواپر 30 فیصد،بوستان اسپیشل اکنامک زون بلوچستان پر 20 فیصد اور دھابیجی اسپیشل اکنامک زون سندھ پر پانچ فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں طے شدہ اہداف کے مطابق تمام اکنامک زونز 2020ء تک مکمل ہونے تھے تاہم کورونا کی وبا کے باعث ان کی تکمیل تاخیر کا شکار ہوئی لیکن اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ اکنامک زونز جلد سے جلد مکمل ہو جائیں گے جس سے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔
چین کے سرمایہ کار پاکستان کی ترقی اور دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے حوالے سے جو اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کا بطور چیئرمین فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (فیڈمک) میں خود مشاہدہ کر چکا ہوں۔ فیڈمک کے زیر انتظام بننے والے سی پیک کے سب سے بڑے ترجیحی اسپیشل اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹری سٹی کا سنگ بنیاد جنوری 2020ء میں رکھا گیا تھا۔ اس اکنامک زون میں چین کی 150سے زائد کمپنیاں اور سرمایہ کار تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں فیڈمک کی طرف سے سرمایہ کاروں کو دس سال کی ٹیکس چھوٹ بھی دی گئی ہے جس کی وجہ سے اس اکنامک زون میں بعض صنعتی یونٹس کی جانب سے پروڈکشن یونٹس لگا کر پیداوار بھی شروع کر دی گئی ہے۔ چینی سرمایہ کار اس اکنامک زون سمیت ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں میں ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
چین سے صنعتی تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غربت کے خاتمےکیلئے بھی چین کی پیروی کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ چین نے 40 سال کی مدت میں 80 کروڑ چینی عوام کو غربت سے نجات دلا کر انسانی تاریخ کا منفرد کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین نے پاکستان سے دو سال بعد آزادی حاصل کی تھی اور اس وقت ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی کا یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی فوجی اور اقتصادی قوت ہے۔ اس لئے اگر ہم بھی چینی تعاون سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلیں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان نہ صرف غربت سے نجات حاصل کر سکتا ہے بلکہ صنعتی ترقی کی حقیقی منزل سے بھی ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ چین تخفیف غربت کیلئے پاکستان سے تعاون کر رہا ہے اور اس سلسلہ میں دونوں ممالک کے مابین مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہو چکے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان غربت کے خاتمے کیلئے چین کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکے گا۔
اسی طرح پاکستان کو چین کے ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے تعلیم اور افرادی قوت کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ملک میں بہتر ہنرمند افرادی قوت پیدا کرنے کیلئے ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ پاکستان کو ایک ترقی پذیر ملک سے جدید معیشت بنایا جا سکے۔ چینی ماڈل کے مطابق ہمارے لئے دوسرا اہم قومی ہدف گرین انرجی اور پائیدار ترقی کا فروغ ہونا چاہیے۔ ملک میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے، آلودگی کم کرنے اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ہم چین کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے حقیقی معنوں میں عالم اسلام اور اقوام عالم کا ایک اہم رکن بننا ہے تو یہ ہدف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ٹیکنالوجی میں ترقی کے ذریعے ہی چین نے ای کامرس، ٹیلی کمیونیکیشن اور مینوفیکچرنگ سمیت مختلف شعبوں کو فروغ دیا ہے۔