• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ اتنے ذہین ہیں تو پھر آپ کی مالی حالت اتنی پتلی کیوں ہے؟

یہ سوال بڑا عام اور سادہ سا نظر آتا ہے کیونکہ معاشرے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ذہانت اور زندگی میں کامیابی کا چولی دامن کا ساتھ ہے تاہم ہالینڈ میں ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ذہانت زندگی میں کامیابی میں مدد نہیں کرتی بلکہ الٹا اس کے آڑے آتی ہے اس موضوع پر کئے جانے والے ایک تحقیقی مقالے و مطالعے کے ڈچ پروفیسر برنک یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر اس ذہانت کا فائدہ کیا ہے کہ اچھی تنخواہ اور اعلیٰ نوکری کے باوجود کوئی ذہین شخص قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے انہوں نے یورپ کے شماریات کے مرکزی ادارے کی جانب سے کئے جانے والے ایک سروے کا بھی بغور مطالعہ کیا، جس میں ساڑھے دس ہزار کے لگ بھگ نوجوان خواتین و حضرات سے ان کے حالات زندگی کے بارے میں 25 سوالات پوچھے گئے، اس سرو ے کے سائنسی جائزے سے انہیں معلوم ہوا کہ انسانی’’آئی کیو‘‘ میں ایک اسکور کے اضافے کا مطلب ہے سالانہ آمدنی میں اوسطاً 334یورو کا اضافہ، اس کی مثال یوں سمجھی جاتی ہے کہ اگر کسی کا آئی کیو 100اور سالانہ آمدنی 60ہزار یورو ہے تو اس فارمولے کے تحت120 آئی کیو والے شخص کی سالانہ آمدنی 80ہزار یورو کے لگ بھگ ہوگی۔ تاہم اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہےکہ زیادہ آئی کیو والے افراد زیادہ پیسہ ضرور کماتے ہیں لیکن وہ اس پیسے کو بچا نہیں پاتے اور آخر میں ان کی مالی حالت کم آئی کیو والوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی اور جہاں تک معاشی پریشان حالی کا معاملہ ہے زیادہ عقل یہاں بالکل بے کار ثابت ہوتی ہے، وہ لوگ جن کا آئی کیو 140سے زیادہ ہے(یعنی انتہائی ذہین لوگ) وہ کم آئی کیو (یا د رہے کہ اوسط آئی کیو100 ہوتی ہے) والے افراد کے مقابلے میں قرضے کی قسطیں اد اکرنے میں ناکام رہتے ہیں ان کے دیوالیہ ہونے کی شرح 15.1 فیصد ہے۔ پروفیسر برنک کی تحقیق کے مطابق صرف وہ لوگ معاشی بدحالی سے نسبتاً بہتر طریقے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں جن کا آئی کیو 100سے تھوڑا اوپر ہو تاہم اگر کسی کو قدرت کی طرف سے زیادہ آئی کیو ودیعت نہیں ہوا اور اس وجہ سے احساس کمتری کاشکار ہو رہا ہو تو اسے دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آسٹریلیا کے سائنس دان نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ زیادہ ذہانت اور زندگی میں کامیابی لازم و ملزوم نہیں ، اس لئے کم ذہانت والے افراد بھی معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں اس کیلئے یہ آسٹریلوی پروفیسر ایک ’’بقراطی ٹوپی‘‘ بنا رہے ہیں۔آپ نے سلیمانی ٹوپی کے بارے میں تو سنا ہوگا جسے پہن کر انسان نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اب آسٹریلیا کے سائنس دان ایک ایسی بقراطی ٹوپی ڈیزائن کررہے ہیں جس کے پہننے والے کی چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے گا۔ اس ٹوپی کے اندر ایسے الیکٹرونک آلات نصب ہیں جو ذہن کے بعض حصوں کو بند (آف) اور دوسروں کو ’’آن‘‘ کرسکتے ہیں، ممکنہ طور پر ایسی ٹوپی پہن کرانسان کا ذہن زیادہ تخلیقی ہوسکتا ہے۔

ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ دنیا میں 85فیصد کم عقل مندوں سے عقل مند ترین لوگ رقم اور روپے پیسے کی طاقت کو مانتے اور اس طاقت کے کرشمے کو لاشعوری طور پر سمجھتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پیسے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سے دنیا پر معاشی و اقتصادی بحران ٹوٹا ہے لوگوں میں ذہنی امراض اور ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے بے روزگار افراد جن کیلئے پیسے کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے وہ پریشانی کی بلند سطح پر پہنچ کر ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بیشتر اختلافات اور قتل و غارت کا سبب بھی کسی نہ کسی طرح دولت ہی قرار پائی ہے۔ پیسہ انسان کیلئے اگرچہ بنیادی ضرورت کی حیثیت نہیں رکھتا لیکن اس کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ۔ ماہرین نے یہ بھی دیکھا ہے کہ روپے پیسے کی موجودگی باقاعدہ ’’بلڈ کیمسٹری‘‘ میں تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ جدید طبی، نفسیاتی اور جنیانی تحقیق کے مطابق جیب میں پیسے کی موجودگی انسانی طبیعت میں فرحت اور تازگی پیدا کرتی ہے، موڈ میں تبدیلی کے ان عوامل پر ہونے والی تحقیق کے مطابق عورتیں اس عمل سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جو مردوں سے 79گنا زیادہ ہے۔ خانگی مسائل کی زیادہ وجہ بھی جیب میں پیسے نہ ہونا ہے کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ پیسے سے ایسے بہت سے مسائل دب جاتے ہیں جو عام حالات میں لڑائی جھگڑوں اور علیحدگی کا سبب بنتے ہیں اور آئے روز کے قتل و غارت میں بھی غربت کا کہیں نہ کہیں ہاتھ نظر آتا ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ وہی سماج طویل عرصہ تک زندہ رہتا ہے جو غریب و کمزور کے تئیں حساس ہو۔ یہ بات درست ہے کہ پیسے سے خوشی و مسرت نہیں خریدی جاسکتی لیکن پیسے کے ساتھ وہ چیزیں ضرور خریدی جاسکتی ہیں جن سے انسان کو اطمینان اور خوشی ہوتی ہے ۔ میرے حساب سے خوشی کا انحصار اس پر بھی ہے کہ آپ کتنے صحت مند ہیں،اس کے بعد پیسہ ہے یعنی آپ کے پاس کتنا پیسہ ہے؟ اور یہ بھی کہ وہ کیسے حاصل ہوا ہے؟استحصال و ناجائز ذرائع سے حاصل کیا جانے والا قارون کا خزانہ بھی ایک دیانت دار آدمی کو سوائے خلش کے کچھ نہیں دیتا۔ ماہر نفسیات نے کہا ہے کہ خوش رہنے کیلئے آپ کو ایک خاص حد تک پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ کی آمدنی اس خاص سطح سے کم ہے تو اس میں اضافہ کرکے آپ اپنے لئے مزید خوشیاں خرید سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی آمدنی اس حد سے زیادہ ہے تو پھر اس کے بعد جیسے جیسے آپ کی آمدنی بڑھتی ہے خوشی کا احساس کم ہوتا جاتا ہے ، ہالینڈ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 75ہزار یورو سالانہ آمدنی کے ساتھ آپ بہت سی خوشیاں خرید سکتے ہیں جبکہ 50ہزار پونڈ سالانہ آمدنی کے ساتھ برطانیہ میں اپنے حصے کی خوشیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ پرانے وقتوں کی یہ کہاوت اپنی موت آپ مر چکی ہے کہ خوشیاں خریدی نہیں جا سکتیں۔

تازہ ترین