• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ملک بھر میں مختلف مقامات پر جب پڑھے لکھے لوگ جمع ہوتے ہیں تو اس بات پر خوشی اور فخر کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا وقار بلندیوں پر پہنچ چکا ہے‘ اس قسم کی بات چیت اور بحث مباحثوں میں جو حضرات شریک ہوتے ہیں ان کا اس بات پر بھی اتفاق رائے ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو اس وقار سے متعارف کرانے والا کوئی اور نہیں بلکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک سینئر قانون دان جناب قاضی فائز عیسیٰ ہے‘ قاضی صاحب کا خاندانی پس منظر بھی قابل فخر اور قابل تعریف ہے‘ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آج اگر صوبہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے تو اس کا اعزاز جن قابل احترام افراد کو جاتا ہے ان میں قاضی فائز صاحب کے والد قاضی عیسیٰ صاحب بھی شامل ہیں ‘ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیںکہ قاضی عیسیٰ صاحب پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے آخری وقت قریبی ساتھی رہے‘ قائد اعظم کے اتنے قریبی رفیق ہونے کے باوجود قاضی عیسیٰ صاحب نے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا‘ وہ آخری وقت تک ایک عام شہری کی زندگی گزارتے رہے‘ بعد میں قاضی عیسیٰ صاحب کے فرزند قاضی فائز صاحب نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور اعلیٰ عدلیہ کے جج ہوگئے‘ اس حیثیت میں بھی اب تک وہ منفی معلومات سے پاک اور صاف رہے۔ بہرحال یہ کارنامہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ کرکے کیا۔ اس فیصلے کے تحت جسٹس فائز عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریٹائر ہونے کے بعد نئے چیف جسٹس کا چارج لینا تھا جیسے ہی جسٹس فائز عیسیٰ کو گزشتہ حکومت کی طرف سے پاکستان کا نیا چیف جسٹس بنانے کا اعلان ہوا تو ملک بھر سے متعدد حلقوں کی طرف سے مختلف نوعیت کے اعتراضات ہونے لگے۔ اس سلسلے میں مختلف سیاسی حلقوں کی یہ رائے سامنے آئی کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے جبکہ کچھ دیگر حلقوں کی طرف سے کچھ اور نوعیت کے اعتراضات کئے گئے۔ ان اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں ایک اہم کارروائی یہ سامنے آئی کہ ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی طرف سے سپریم کورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کے خلاف ریفرنس داخل کیا گیا جس کی شاید اب تک سماعت نہیں ہوئی‘ اسی دوران پاکستان کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنا Tenure ختم ہونے کے بعد ریٹائر ہوگئے اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے چیف جسٹس کا چارج سنبھال لیا۔ بہرحال اس فیصلے کو سندھ کے عوام اور سیاسی اور قانونی حلقوں کی طرف سے سراہا گیا۔ اسی دوران ایک اہم قانونی ڈولپمنٹ یہ ہوئی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے گزشتہ دور حکومت میں ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ منظور کیا مگر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پارلیمنٹ میں منظور شدہ اس قانون کو منظور نہیں کیا اور کہا کہ ’’پارلیمنٹ سپریم کورٹ پر یہ قانون مسلط کررہی ہے‘‘ مگر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس کے اس فیصلے کا جائزہ لینے کیلئے ’’فل سپریم کورٹ‘‘ تشکیل دیااور اکثریتی رائے سے مجوزہ قانون کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے خلاف تمام درخواستیں خارج کردیں۔ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس نے اب تک جو فیصلے کئے ہیں ان کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک تو یہ فیصلہ کیا کہ کیس کی ’’فل سپریم کورٹ‘‘ سماعت کرے گی جبکہ ساتھ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ فل کورٹ جو سماعت کرے گی وہ ٹیلی وژن پر لائیو دکھائی جائے گی۔ اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کررہا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ کی طرف سے سماعت ٹی وی پر جس طرح لائیو دکھائی گئی اس کی مثال پاکستان کی 75 سال کی تاریخ میں نہیں ملتی مگر کچھ حلقے تو یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی تاریخ میں اب تک اس ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے کسی بھی کیس کی لائیو سماعت نہیں کی،یہ صحیح ہے تو بے شک موجودہ چیف جسٹس کا فیصلہ نہ فقط پاکستان بلکہ ساری دنیا کیلئے مثال ہے مگر جہاں تک فل کورٹ کی طرف سے کسی کیس کی سماعت کا تعلق ہے تو کچھ قانون دانوں کے مطابق یہ کم سے کم پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ ان قانون دانوں کا کہنا ہے کہ اب تک فل کورٹ کے ذریعے سماعت کے سلسلے میں جو بھی فیصلے ہوئے ان کے تحت اس سپریم کورٹ کا چیف جسٹس فیصلہ کرتاتھا کہ کتنے جج اس کیس کی سماعت کریں گے۔ بہرحال مجموعی طور پر ملک بھر کے سیاسی اور قانونی حلقے جسٹس فائز عیسیٰ کے ان فیصلوں کی بہت تعریف کررہے ہیں‘ عام لوگوں نے بھی اس فیصلے کی تعریف کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے قابل احترام جج صاحبان مختلف ایشوز پر کیا فیصلے کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں عام لوگوں کے مطابق اس سے بڑے وکیلوں کی ذہنیت اور قابلیت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔ لوگ تو یہ بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ آئندہ اس بات کو اعلیٰ عدلیہ کی روایت بنایا جائے کہ حساس اور اہم قومی‘ سیاسی اور معاشی ایشوز کے مقدمات کی سماعت اسی انداز میں کی جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی مثالیں دنیا بھرمیں دی جانے لگیں گی اور شاید دنیا کے دیگر ملکوں میں آئندہ اہم کیسز کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی طرف سے سماعت اس نوع کی ہونے لگے اور اس سے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا وقار بلندیوں کو چھوئے گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین