عالمی معیشت ابھی تک یوکرین کی جنگ کے اثرات سے نہیں نکل پائی تھی کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ شروع ہو چکی ہے ۔ فلسطین ایک ایسا ’’فلیش پوائنٹ‘‘ہے ، جو نہ صرف علاقائی اور عالمی امن کیلئے ہمیشہ خطرہ بنا رہتا ہے بلکہ جنگ کہیں بھی ہو ، کسی سطح کی بھی ہو اور اس کے نتائج کچھ بھی ہوں ، اس کا فائدہ عالمی سامراجی طاقتیں ہی حاصل کرتی ہیں ۔ فلسطین کی طرح کشمیر اور بوسنیا سمیت کئی ’’ فلیش پوائنٹس ‘‘ ہیں ، جنہیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام جب چاہتا ہے ، مزید بھڑکا دیتا ہے ۔ فلسطین اسرائیل جنگ جیسے بھی شروع ہوئی اور جس کی طرف سے بھی شروع کی گئی ، ہمیشہ کی طرح اس کا نقصان فلسطینیوں کو ہو گا ۔ عالمی ذرائع ابلاغ وہی عشروں پرانی خبریں دہرائیں گے کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی فلسطینی شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری ، خواتین ، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں سمیت ہزاروں افراد شہید ، اسپتال اور دیگر طبی سہولتیں تباہ ۔ ٹی وی چینلز پر بے بس اور چیختے زخمی فلسطینی بچوں کی درد ناک ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں ۔ عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی پر عالمی رہنمائوں کی نرم یا سخت مذمت کے بیانات آتے ہیں ۔ پھر کچھ عرصے بعد لوگ ان درد ناک مناظر کو بھول جاتے ہیں اور انہیں آہستہ آہستہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ عالمی سیاست اور معیشت کی حرکیات ( Dynamics ) تبدیل ہو چکی ہے۔
تاریخ میں ایک عہد ایسا آیا تھا ، جب دنیا میں یہ شعور تھا کہ ظالم اور مظلوم کون ہے ۔ یہ وہ عہد تھا ، جب پوری دنیا میں ایک ساتھ سوشلسٹ ، جمہوری اور قومی آزادی کی تحریکوں کا طوفان اٹھا تھا ۔ یہ 20 ویں صدی کے پہلے 6 عشروں کا عہد تھا ، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس عہد میں جن قوموں کی آزادی کا مسئلہ حل نہیں ہوا ، وہ آج تک حل نہیں ہو سکا ۔ ان میں فلسطین کے عوام کا مسئلہ بھی شامل ہے ، جو 1947 ء سے حل طلب ہے ۔ اس عہد میں عالمی سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور بہت کمزور تھا ۔ اس کے بعد وہ پھر مضبوط ہوا اور اب سارے معاملات کو اپنی مرضی کا رخ دے دیتا ہے ۔
حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ میں بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ پہلا حملہ فلسطینی تنظیم ’’ حماس ‘‘ کے جنگجوئوں نے کیا لیکن اب اسرائیل کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ یہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو گی ، جب تک ’’ حماس ‘‘ کو ختم نہیں کر دیا جاتا ۔ آج کے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ حماس کا حملہ مسلسل اسرائیلی مظالم کا ایسا ردعمل ہے ، جو ’’ مرتا کیا نہ کرتا ‘‘ کے مصداق ہے ۔ امریکا اور اسرائیل اب یہ چاہتے ہیں کہ یوکرین کی طرح اس جنگ کو طوالت دی جائے ۔ یوکرین جنگ بنیادی طور پر امریکا اور روس کے مفادات کا ٹکرائو تھی ۔ اب بھی یہی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے ۔ امریکا کو علم ہے کہ اس کے خلاف روس ، چین اور ایران وغیرہ مل کر جو صف بندی کر رہے ہیں ، اس کو نقصان پہنچانے اور مختلف علاقوں پر امریکی کنٹرول برقرار رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی ایک خطے یا مختلف خطوں میں عدم استحکام پیدا کیا جائے اور غیر محسوس طور پر عالمی جنگ والی صورت حال پیدا کی جائے ۔
اگر یہ جنگ طویل ہوتی ہے تو کسی حد تک روس اور چین ، بڑی حد تک ایران اور شام اور دیگر عرب ممالک اس میں براہ راست یا بالواسطہ فلسطینیوں کی پشت پناہی کیلئے ملوث ہوں گے ۔ متحدہ عرب امارات ، قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک کیلئے بھی آزمائش پیدا ہو گئی ہے ، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی امریکا مخالف کیمپ سے اپنے معاشی مفادات بھی جوڑ رہے ہیں ۔ ان کیلئے اپنی پوزیشن واضح کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔ یہی امریکا چاہتا ہے کہ وہ لکیر کے اس طرف یا اس طرف ۔
اس وقت جو عالمی طاقتیں یا قومیں فلسطین کے عوام کے موقف کی حمایت کرتی ہیں یا وہ چاہتی ہیں کہ فلسطینی عوام مزید اسرائیلی جارحیت کا شکار نہ ہوں ، انہیں چاہئے کہ وہ فوری جنگ بندی کیلئے کوششیں کریں کیونکہ نہ صرف فلسطینی عوام خصوصاً غزہ کی پٹی پر عوام بہت دردناک صورت حال سے دوچار ہیں بلکہ اس خطے میں امریکا کے خلاف ہونے والی صف بندی کو بھی بہت نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ زیادہ تر عرب ممالک غیر جمہوری حکومتوں یا بادشاہت کے زیر اثر ہیں اور ان کا بہت عرصے سے امریکا پر انحصار ہے ۔ وہ کھل کر فلسطینیوں کی جنگ میں نہیں کود سکتے ۔ اگر شام جیسے ممالک اس جنگ میں کود بھی جائیں تو بھی نتائج امریکا اور عالمی سامراجی سرمایہ دار قوتوں کے حق میں ہوں گے ۔ مظلوم فلسطینیوں کو مزید قہر اور عذاب سے بچانے کیلئے جنگ بندی پر زور دیا جائے ۔ امریکا ڈالر اور تیل کی قیمتیں گرنے کا عمل روس یوکرین کی جنگ کے بعد اسرائیل فلسطین جنگ کے ذریعہ روکنا چاہتا ہے ۔ مسلم دنیا میں یہ احساس تو پیدا ہو گیا ہے کہ اسرائیل کی ریاست ایک حقیقت ہے لیکن اسرائیل اور اس کے حواری سامراجی ممالک میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ فلسطینی ریاست بھی ایک حقیقت ہے اور فلسطینیوں کو صہیونی سوچ کے قہر سے آزاد اور پرامن طور پر رہنے کا حق ہے ۔ یہ احساس پیدا کرنے کیلئے اس خطے کے ممالک کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے ۔ جیسے ایران سعودی عرب میں تعلقات نارمل ہوئے ، جیسے سعودی عرب کو یمن میں جنگ نہ لڑنے کا احساس ہوا ، جیسے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک چین اور روس کے ساتھ مل کر نئے معاشی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں ، ویسے ہی ابھی بہت کچھ کرنا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)