• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکتوبر، بریسٹ کینسر سے آگہی کا مہینہ ہے، سو پورا ماہ اس ضمن میں آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔ اِس کا ایک مقصد جہاں عوام النّاس میں اِس مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے، وہیں اِن مہمّات کے ذریعے متاثرہ خواتین کو اِس سرطان کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ بھی دینا ہے۔ صرف پاکستان جیسے ترقّی پذیر ممالک ہی نہیں، امریکا جیسے ترقّی یافتہ ممالک میں بھی بریسٹ کینسر کی شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

اگرچہ ہر سال آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھی اِس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے، تاہم اس کے باوجود اب بھی مرض سے متعلق آگہی میں خاصی کمی پائی جاتی ہے، خصوصاً ہمارے معاشرے میں تو آج بھی بریسٹ کینسر سے متعلق گفتگو معیوب سمجھی جاتی ہے۔ خواتین ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

بریسٹ میں گلٹی کے باوجود سال ہا سال گزار دیتی ہیں اور گھر والوں تک کو خبر نہیں ہونے دیتیں۔یہاں تک کہ اِس سرطان سے جسم کے باقی اعضاء جگر، پھیپھڑے، ہڈیاں اور دماغ بھی متاثر ہونے لگتا ہے۔ اور جب مرض آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے، تب کہیں جاکر ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے کہ مریض کی جان بچالی جائے، لیکن تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے،کیوں کہ بروقت تشخیص اور فوری علاج کے بغیر اِس مرض سے نجات ممکن نہیں۔

1965ء میں پہلی بار بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی مہم چلائی گئی اور 2023ء میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک بین الاقوامی جریدے کی رپورٹ کے مطابق2019ء سے پاکستان میں سرطان کے مریضوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔2019ء میں کینسر کے40,797 مریض رپورٹ ہوئے، جن میں56 فی صد خواتین اور44 فی صد مرد شامل تھے۔ اِس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر سرِفہرست رہا اور اس کی شکار خواتین کی عُمریں20 سے39 سال کے درمیان تھیں۔ 

اِس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بریسٹ کینسر سے متعلق عوام النّاس کو زیادہ سے زیادہ آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی مسلسل بڑھتی شرح کنٹرول کی جا سکے۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) یعنی ادارہ جوہری توانائی، پاکستان1956 ء میں قائم ہوا اور اُس وقت سے لے کر آج تک جوہری توانائی کے ساتھ انسانی صحت کے تحفّظ کے لیے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ پی اے ای سی کے زیرِ نگرانی 19میڈیکل سینٹرز مختلف امراض، بالخصوص سرطان کی تشخیص اور علاج کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ میڈیکل سینٹرز اسلام آباد، کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، بہاول پور، لاڑکانہ، جام شورو، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، بنّوں، ایبٹ آباد، سوات اور گلگت میں کام کر رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق، دنیا بَھر میں ہر9 میں سے ایک خاتون، جب کہ پاکستان میں ہر8 میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کے خطرے سے دوچار ہے۔اس کی علامات میں بریسٹ میں ایسی گلٹی کا موجود ہونا، جس میں عموماً درد نہیں ہوتا،بریسٹ کی جلد کا ناہم وار یا سرخ ہونا، اندر دھنس جانا، نپل کا دھنس جانا، اس میں سے خون یا کسی اور مواد کا خارج ہونا اور بسا اوقات بغل میں گلٹی کا موجود ہونا شامل ہیں۔ جس گلٹی میں درد نہ ہو، اُس کا تفصیلی معائنہ کروانا ضروری ہے، تاہم یہ ضروری نہیں کہ محسوس ہونے والی ہر گلٹی، سرطان ہی کی گلٹی ہو۔

بریسٹ کینسر کی بہت سی وجوہ ہیں اور 20سال کی عُمرمیں 0.6فی صد امکان ہوتا ہے کہ خواتین اس کا شکار ہو جائیں اور یہ امکان 70سال کی عُمر میں بڑھ کر 3.84فی صد ہو جاتا ہے۔ہمارے ہاں بریسٹ کینسر کم عُمر خواتین میں زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس کے علاوہ، مانع حمل ادویہ کا بے جا استعمال، ماہ واری نظام کا 12سال کی عُمر سے جلد شروع ہونا یا 55سال کی عُمر سے زائد جاری رہنا،30 سال کی عُمر سے پہلے کسی اور بیماری کے سبب بریسٹ کا شعاؤں کے ذریعے علاج، موروثی کینسر، ماں کا بچّے کو دودھ نہ پلانا، موٹاپا، تمباکو اور شراب نوشی وغیرہ اہم وجوہ میں شامل ہیں۔اگر خاندان میں والدہ، خالہ، پھوپھی، فرسٹ کزن یا بہن کو بریسٹ کینسر ہو، تو آنے والی نسل میں اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 

بعض اوقات ایسے Syndromes ہوجاتے ہیں، جن سے خاندان کے لوگ مختلف اقسام کے کینسرز میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جیسے بریسٹ کینسر، بچّہ دانی، دماغ، آنتوں یا خون کا کینسر۔ اس حوالے سےGenetic Testing کی سہولت موجود ہے۔کچھ خاص جینز جو بریسٹ کینسر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اُن کی تشخیص کے لیے جدید ترین ٹیسٹس کی سہولت نہ صرف پاکستان کے بڑے شہروں، بلکہ جنوبی پنجاب میں بھی دست یاب ہے۔

دیگر کینسرز کی طرح بریسٹ کینسر کا بھی مختلف مراحل کے مطابق علاج کیا جاتا ہے۔اسٹیج وَن اور ٹو، یعنی ابتدائی مراحل میں علاج سے تقریباً98 فی صد تک کام یابی حاصل ہوتی ہے، تیسرے مرحلے میں تقریباً80.6 فی صد تک مریض صحت یاب ہو سکتے ہیں، جب کہ چوتھے اور آخری مرحلے میں، جب بیماری جسم کے باقی حصّوں تک پہنچ جاتی ہے، تقریباً 20سے30 فی صد مریضوں میں مرض کنٹرول ہو سکتا ہے۔ بریسٹ کینسر کے علاج کے دَوران اور علاج کے بعد عام طور پر تقریباً دو سے تین سال تک کے لیے خواتین کو حاملہ نہ ہونے کی ہدایت کی جاتی ہے، جس کے لیے وہ مانع حمل ادویہ کے استعمال کی بجائے معالج کے مشورے سے دیگر تدابیر اختیار کرسکتی ہیں۔

بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی کے ضمن میں اسکریننگ پروگرام کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ بیماری سے پہلے بچائو کے لیے اقدامات کرنا۔40 سے 44 سال تک کی عُمر کی خواتین کے لیے یہ مشورہ ضروری ہے کہ وہ اپنی صحت سے متعلق باخبر رہیں اور باقاعدہ میموگرافی کروائیں۔45 سال سے54 سال تک کی خواتین کو سال میں ایک بار، جب کہ 55سال یا اس سے زائد عُمر کی خواتین کو ہر دوسرے سال یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے۔خواتین کو خود اپنا جسمانی معاینہ بھی کرتے رہنا چاہیے اور اِس کا طریقہ متعلقہ ڈاکٹر سے اچھی طرح سمجھ لیں۔ کسی بھی تبدیلی کی صُورت میں وقت ضایع کیے بغیر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

مینار کینسر اسپتال، ملتان میں بریسٹ کینسر کی تشخیص اور علاج کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔تشخیصی ٹیسٹس میں معائنہ،FNACیعنی گلٹی میں سرنج ڈال کر چند خلیے لے کر کینسر کی تشخیص، Biopsy یعنی گلٹی کا نمونہ لینا، میمو گرافی اور الٹرا سائونڈ شامل ہیں۔ اِس مقصد کے لیے’’بریسٹ کلینک ‘‘مینار اسپتال کا ایک اہم حصّہ ہے، جس میں مستعد عملہ اور ماہر لیڈی ڈاکٹرز تعیّنات ہیں۔ بریسٹ کینسر کے طریقۂ علاج میں آپریشن، کیمو تھراپی، ریڈیو تھراپی ( شعاؤں کے ذریعے )شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جدید طریقۂ علاج میں ہارمون تھراپی، بائیولوجیکل ٹریٹمنٹ اور ٹاگٹڈ تھراپی بھی شامل ہیں۔

یعنی ایسی ادویہ جن کے سائیڈ ایفیکٹس کم سے کم ہوتے ہیں اور یہ انجیکشنز، ٹیبلیٹس اور کیپسولز کی شکل میں بریسٹ کینسر کے علاج میں مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔ریڈیو تھراپی یعنی شعاؤں سے علاج میں جدید ترین مشینLINAC بھی شامل ہے۔نیز، متاثرہ خواتین کو یہ بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بریسٹ کینسر کا علاج مکمل ہونے کے بعد اگلے 5سال تک چیک اَپ کے لیے آتی رہیں کہ مریضاؤں کے لیے یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے اور اس دوران سرطان کے دوبارہ ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ بریسٹ کینسر کو شکست دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے بروقت تشخیص اور فوری علاج ضروری ہے۔ (مضمون نگار، اٹامک انرجی مینار کینسر اسپتال، ملتان سے بطور کنسلٹنٹ آنکولوجسٹ وابستہ ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید