ہمارا آج کا پاکستان، نہ اسلامی ہے ، نہ جمہوری۔ ہمارا پہلا عارضی آئین مرحوم (اور مقتول) وزیر اعظم لیاقت علی کے دور میں بنا تھا۔ ایک بہت مناسب، لیکن قلیل البقا مسودہ، اس کی چند ابتدائی اور اصولی سطور درج ذیل ہیں۔
(۱)’’اقتدارِ اعلیٰ رب العالمین کا ہے، (۲) دستور کتاب اور سنت پر مبنی ہو گا، (۳) اسلامی مملکت اسلامی نظریۂ حیات پر استوار کی جائے گی (۴) اسلامی مملکت وحدتِ ملت ِ اسلامیہ کا انتظام کرے گی (۵) مملکت کی طرز حکومت شورائی ہو گی‘‘۔ تاریخ میں ہر ارادہ انفرادی ہو یا قومی نہ گردش ایام کا مقابلہ کر کے اپنی منزل تک پہنچتا ہے اور نہ کسی خدا ترس حاکم کو (سوائے کسی عظیم المرتبت نبی ؐ کے) اپنے منشور پر عمل کر کے اسے تاریخ عالم کا ایک پائیدار باب بننے دیتا ہے، ہمارے پہلے صاحب ایمان اور دیانت داروزیر اعظم کو بھی، جلسۂ عام میں شہید کا رتبہ دے کر اس کے عظیم اسلامی اور جمہوری نظریہ آئین سازی کو ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیااور اس کے بعد ’’اسلامی جمہوریۂ پاکستان‘‘ کا نام تو وہی رہا جو شاید مرحوم نوابزادہ کے دل میں بھی گردش کر رہا تھا، لیکن ہماری سرزمین میں آنے والی حکومتوں کو ’’اقتدار کی غلامی‘‘ نے ’’اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ‘‘ اور ’’سنت نبویﷺ‘‘کی بنیادی فہم و فراست سے محروم کر کے ، فرنگ کا عملی اور مقروضی غلام بنا دیا۔ موجودہ پاکستان کا کوئی صاحب ِ علم و حکمت حکمران میرے اس تاریخی تجزیئے کو چیلنج کرنا چاہے تو صد خوش آمدید۔ اس تمام غمناک واقعہ کو، کئی سال پہلے، مرحوم علامہ اقبالؒ نے ایک شعر میں صاف طور پر بیان کر دیا تھا۔ شعر ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن
ترجمہ :(اگر تم مسلمانی اندازمیں زندگی بسر کرنا چاہتےہو ، تو ایسی زندگی قرآن کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں) ۔قارئین، مرحوم لیاقت علی کا درج بالا تعارفی جملہ کہ ’’دستور ،کتاب اور سنت پر مبنی ہو گا‘‘ اقبال کے مذکورہ شعر کی آفاقیت کا ایک اہم سیاسی جزو ہے، ’’سبحان اللہ، سچائی اور دیانت کس درجہ آفاقی اور دوامی اقدار ہیں‘‘۔ میرا ایک شعر سنتے جایئے ؎
نشہ آور تو ہوتی ہے مگر ساقی نہیں ہوتی
کہ حرص آلودہ روح آفاقی و باقی نہیں ہوتی
مرحوم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کئی حریص سیاستکاروں نے، سیاست کو سرمایہ کاری اور دنیاداری کا ذریعہ بنا لیا، پھر ہماری جمہوریت نے سچی سیاست کی بجائے حصولِ دولت کا ذریعہ بنا لیا۔ چنانچہ 1951سے لے کر 1956تک پاکستان کے ’’عہدہ و مال‘‘ کے لالچی خود ساختہ سیاستدانوں نے پانچ سال کے اندر درج ذیل نئی سیاسی جماعتوں کو جنم دیا۔ (۱) عوامی مسلم لیگ (۲) پیپلز پارٹی (۳) جناح مسلم لیگ (۴) کرشک سرامک پارٹی (۵)ری پبلکن پارٹی (۶) نیشنل عوامی پارٹی۔ یعنی پانچ سال کے اندرچھ نئی لوٹ مار والی جماعتیں، لیکن مرحوم علامہ اقبالؒ نے تو ایک عددی شعر میں بات اور بھی واضح کر دی۔ انہوں نے شاید کسی سیاسی مصلحت کے تحت فارسی زبان میں کہا ؎
گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر، فکر انسانے نمی آید
(جمہوری نظام سے پرہیز کر، کسی پختہ کار کا غلام بن کیونکہ دو سو گدھو ںکا دماغ ایک انسان کی سوچ پیدا نہیں کرسکتا)اف توبہ علامہ نے، انتخاب قیادت کا معیار کتنی بلندی پر جا پھینکا۔
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
لیکن اقبال جیسے مرد اب کہاں۔ ہمیں مسلم ریاست کی بنیادیں سمجھنے کو کئی سال پیچھے جانا پڑے گا۔