1987ء میں نیو یارک میں ورکنگ لیڈیز کیلئے قائم بورڈنگ ہاؤس میں ایک پریشان حال لڑکی داخل ہوئی۔ بورڈنگ ہاؤس میں آتے ہی اس نے وہاں موجود لوگوں سے اپنے سامان کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔ مثبت جواب نہ ملنے پر لڑکی عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگی۔ لوگ اس سے دور جا بیٹھے مگر وہ وہیں رکی رہی۔ رات ہوئی تو وہ لڑکی اونچی آواز میں چیخنے لگی اور ایک پل بھی نہ سوئی۔ صبح ہوتے ہی بورڈنگ ہاؤس انتظامیہ نے لڑکی کو پولیس کے حوالے کر دیا جو اسے کورٹ روم لے گئی۔ وہاں اس کا چار ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور لڑکی کو پاگل قراردے دیا۔ پھر جج کی ہدایت پر اسے بلیک ویل میں قائم پاگل خانے بھیج دیا گیا جہاں وہ دس دن تک رہی۔ گیارہویں روز کوئی وکیل اس لڑکی کو وہاں سے نکلوا کر اپنے ساتھ لے گیا۔9 اکتوبر 1987 کو مشہور اخبار نیویارک ورلڈ نے ایک آرٹیکل سیریز چھاپنے کا آغاز کیا جس میں بلیک ویل میں قائم مینٹل ہاسپٹل میں ذہنی مریضوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کو پوری تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ آرٹیکل میں بتایا گیا کہ ہاسپٹل میں مقیم مریضوں کو گندا کھانا کھانے اور کم لباس پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہیں لکڑی کے بنچ پر سارا دن ایک ہی پوزیشن میں بیٹھنے کا کہا جاتا ہے اور احتجاج پر چھڑی کا بے دریغ استعمال کا جاتا ہے۔ مریضوں کو ٹھنڈے پانی سے نہلایا جاتا ہے اور غلیظ گالیوں اور تشدد سے ذہنی و جسمانی اذیت دی جاتی ہے۔ آرٹیکل الزبتھ سیمین نے لکھا تھا اور یہ وہی لڑکی تھی جسے وکیل چھڑا کر لے گیا تھا۔ اس آرٹیکل کے مندرجات پورے ملک کے اخبارات میں چھپے جس نے بلیک ویل مینٹل ہاسپٹل کو بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے پر مجبور کر دیا۔بورڈنگ ہاؤس میں لوگوں کو تنگ کرنا بلیک ویل مینٹل ہاسپٹل میں داخلے کا ایک ذریعہ تھا۔ اپنی اداکاری سے الزبتھ ڈاکٹروں کو بھی بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ الزبتھ سیمین کی یہ رپورٹنگ صحافتی تاریخ کی اعلیٰ ترین رپورٹنگز میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹنگ نیویارک ورلڈ کے ایڈیٹر جوزف پولٹزر نے کروائی تھی جس کے نام پر صحافت اور دیگر شعبوں میں پولٹزر پرائز دیا جاتا ہے۔دنیا بھر میں صحافت، معاشرے کو صحت مند بنانےکیلئے کی جاتی ہے۔ جرنلسٹ حقائق کو رپورٹ کر کے باقی کا کام پالیسی میکرز اور ایڈمنسٹریشن پر چھوڑ دیتے ہیں۔ باب ووڈورڈ، سیمور ہرش، اپٹن سنکلیئر، سٹیو کول جیسے سینکڑوں نام ہیں جنہوں نے صرف ایک ایک سٹوری پر مہینوں محنت کی۔ بعض اوقات خبر بہت جلد مل جاتی ہے مگر تصدیق کیلئے بیسیوں دن گزر جاتے ہیں۔ اچھا رپورٹر کبھی بھی ہوا میں بات نہیں کرتا۔ اس کی گفتگو کے پیچھے کئی ذرائع ہوتے ہیں۔ الزبتھ سیمین کے پاس بھی بلیک ویل مینٹل ہاسپٹل میں ہونے والے ناروا سلوک بارے اطلاعات تو پہلے ہی سے تھیں جنہیں وہ خبری شکل دے سکتی تھی مگر اس نے انتظار کیا اور اس وقت تک ایک لفظ بھی پریس میں نہیں دیا جب تک وہ خود اس ہاسپٹل میں معاملات کا مشاہدہ نہ کر آئی۔ترقی یافتہ ممالک میں ایڈیٹر اپنے رپورٹر سے روزانہ کی بنیاد پر سٹوریز نہیں مانگتے۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ مختلف ہے، کئی بڑے ٹی وی چینلز کے رپورٹروں کو روزانہ چار سے پانچ خبریں فائل کرنے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں جرمانہ کر کے پیسے تنخواہ سے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رپورٹر خبروں کی تعداد پوری کرنے میں لگا رہتا ہے اور کسی بھی ایک خبر پر مکمل تحقیق نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر فیصلوں، اقدامات اور واقعات کے پس پردہ حقائق سامنے نہیں آتے۔ الزبتھ سیمین اس وقت تئیس سال کی تھی جب اس نے مینٹل ہاسپٹل کا سکینڈل بریک کیا۔ ہمارے یہاں تئیس سال کی عمر کے نوجوان کے ہاتھ میں ماس کمیونیکیشن کی ایسی ڈگری ہوتی ہے جس کا پریکٹیکل فیلڈ میں دس فیصد بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ کسی اچھے ایڈیٹر کی شاگردی اختیار کرنے کی بجائے ان ڈگریوں کو صحافتی کاملیت کا سرٹیفکیٹ سمجھ کر سٹوڈنٹس اپنا اپنا یو ٹیوب چینل کھول لیتے ہیں جن پر ایسی ایسی حیرت انگیز داستانیں سننے کو ملتی ہیں کہ ان کے سامنے الف لیلیٰ بھی پھیکی پڑ جائے۔ واضح رہے کہ عام آدمی کے پاس سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا۔ وہ جو سنتا اور دیکھتا ہے، اس کا اثر ضرور لیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک صحافیوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ ان کی رپورٹنگ سے عام آدمی کی ذہن سازی اور معاشرتی تعمیر یقینی بنتی ہے۔ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ملکی و عوامی مسائل کو سامنے لا کر سوسائٹی میں بہتری کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان میں یہ فیلڈ عدم توجہی کا شکار ہو رہا ہے۔ ملک میں جرنلسٹس کی بجائے منی میکنگ مشینز تیار ہو رہی ہیں۔ معاشرے کی اصلاح سے غرض نہیں، بس مخصوص بیانیہ آگے چلتا رہے، اس وقت کی صحافت کا یہی نوحہ ہے۔ سوشل میڈیا پر پیسے کمانے کی دوڑ اور لکھنے پر پابندیوں نے تحقیقاتی صحافت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سچائی خریدنے والا کوئی نہیں، جھوٹ کے پرستار ہزاروں ہیں۔ حقیقت ریٹنگز کی دھول تلے دب رہی ہے اور سچ افسانہ سازی کی دھند میں لاپتہ ہو گیا ہے۔ صحافت جسے دو دھاری تلوار کہا جاتا تھا، کو ریٹنگز کا زنگ لگ چکا۔ ایسے میں کوئی تو اس آدمی تک ٹھیک بات پہنچائے جس کے پاس سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔