نواز شریف کی واپسی ہو گئی۔ اُن کا جلسہ بھی کامیاب رہا۔ جلسہ میںجوتقریر کی، وہ بھی اُس ماحول کے مطابق تھی جس میں اُن کی واپسی ممکن ہوئی۔ چار سال قبل جب میاں صاحب پاکستان سے باہر گئے تو اُس وقت اُن کے اور اُن کی سیاسی جماعت کیلئے حالات بہت خراب تھے۔ اب جب چار سال کے بعد واپسی ہوئی تو اُن کیلئے سب کچھ بدل گیا۔ وہ اب بھی سزا یافتہ ہیں لیکن اُن کا استقبال ایک امید کے طور پر کیا گیا، اُن کو عدلیہ ، حکومت اور ریاست کی طرف سے ویلکم کیے جانے کا تاثرنہ چھپا ہوا تھا اور نہ ہی اُسے چھپانے کی کوشش کی گئی۔ میاں صاحب مستقبل کے حکمران کے طور پر واپس لوٹے۔وہ جب گئے تو اُس وقت وہ ایک سزا یافتہ مجرم تھے، جب واپس آئے تو بھی سزا یافتہ مجرم ہیں لیکن اُن کا جس انداز میں ویلکم کیا گیاوہ یقینا ایک ’’لاڈلےـ‘‘ والا تھا۔ یہ کس کی جیت ہے اور کس کی ہار؟ اس بارے میں ہر ایک کی اپنی رائے ہو سکتی ہے لیکن میری نظر میں نواز شریف کی واپسی، اُن کا خطاب اور مستقبل کا ایجنڈا سب کچھ اُس ماحول کے مطابق ہے جو تحریک انصاف کے 9مئی کے حملوںکا نتیجہ ہے اور جس کی بنیاد میاں شہباز شریف کی حکومت کے دوران رکھ دی گئی تھی۔ یعنی ایک ایسا ماحول جس میں ن لیگ کو آئندہ الیکشن کیلئے سپورٹ دی جائے، انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنے اُس کی ساری توجہ معیشت کی جنگی بنیادوں پرترقی، سرمایہ کاری کے فروغ، مہنگائی پر قابو پانے، ٹیکس اصلاحات، سمگلنگ و ڈالر مافیا کے خلاف کریک ڈائون وغیرہ جیسے اقدامات پر ہو ۔ معیشت کی بہتری کیلئے اس قومی ایجنڈے کی سوچ میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا کلیدی کردار ہے۔ بحیثیت وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس ایجنڈے کو اپنی حکومت میں بھرپور سپورٹ کیا جس میں سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام ایک اہم ترین فیصلہ تھا۔ یعنی ملک کی معیشت کی بہتری کیلئے سول حکومت اور فوج کا مل کر کام کرنے کا فیصلہ شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کا تھا اور اس ایجنڈے کے حصول کیلئے اس وقت بھی بہت کام ہو رہا ہے جس کی نگرانی ادارے خود کر رہے ہیں۔ اس ایجنڈے کے حصول کیلئے ملک نہ سیاسی لڑائیوں کا اور نہ ہی اداروں کے درمیان تصادم کا مزید متحمل ہو سکتا ہے، جس کیلئے ضروری ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت اور حکمران کسی انتقام، کسی سیاسی کھینچا تانی، کسی گالم گلوچ اور غیر ضروری تنازعات میں پڑے بغیر ساری توجہ معیشت کو درست کرنے، بنیادی خرابیوں کو دور کرنے اور اصلاحات پر مرکوز کریں۔ میاں نواز شریف کی تقریر اسی ایجنڈے کے مطابق تھی۔ اُن کے بیانیہ میں انتقام کیلئے کوئی جگہ نہیں اور اُنہوں نے واضح کیا کہ وہ سب کو بشمول اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ سو جس سوچ کی بنیاد شہباز حکومت کے دوران رکھی گئی اُسی سوچ کے مطابق نواز شریف کی واپسی ہوئی اور اُسی سوچ کا اظہار میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں کیا۔ سیاستدان، میڈیا سب کو معلوم ہے کہ ن لیگ کیلئے آئندہ انتخابات میں جیتنے کا رستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے بعد وزیر اعظم کون بنے گا اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں۔ اگرچہ ن لیگی یہ نعرہ ،یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے لیکن اگر انتخابات کا نتیجہ وہی ہوا جو اس وقت بہت سوں کو نظر آ رہا ہے تو میری ذاتی رائے میں وزیراعظم شہباز شریف بن سکتے ہیں اور اس فیصلہ کا اعلان نواز شریف خود کر سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)