مولانا قاری محمّد سلمان عثمانی
’’مسجد ِاقصیٰ‘‘ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل اور مسجدِ حرام اور مسجدِ نبویؐ کے بعد تیسرا مقدّس ترین مقام ہے۔ مسجدِ اقصیٰ فلسطین کے شہر، یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بیرونی صحن میں بھی بہ یک وقت ہزاروں فرزندانِ توحید نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجدِ اقصیٰ کو اس اعتبار سے بھی فضیلت حاصل ہے کہ سفرِ معراج کے موقعے پر تمام انبیاء نے اسی مسجد میں نبی اکرمﷺ کی امامت میں نماز ادا کی تھی۔
نیز، رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو تین اہم مساجد کی زیارت کا حکم دیا تھا۔ ان میں مکّہ کی مسجد الحرام، مدینہ کی مسجد نبویؐ اور مسجدِ اقصیٰ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ان تینوں مساجد میں سے کسی ایک میں بھی نماز پڑھنے کا ثواب دیگر مساجدمیں نماز اداکرنے کے مقابلے میں پانچ سو گُنا زیادہ ہے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ ربّ العزّت کا ارشاد ہے کہ ’’وہ ذات پاک ہے جو لے گئی ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانۂ کعبہ) سے مسجدِ اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سُننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل)
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عُمر سے روایت ہے کہ’’ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ 16یا 17مہینے تک القدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حُکم دیا کہ دیکھو اپنا منہ کعبے کی طرف پھیر لو۔‘‘ اُمّ المومنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ جس نے حج یا عُمرے کی نیّت سے مسجدِ اقصیٰ سے مسجدِ حرام تک کا احرام باندھا، تو اس کے اگلے اور پچھلے گُناہ معاف کر دیے جائیں گے یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ اس کے لیے جنّت واجب ہو گئی۔ (سننِ ابودائود: جِلد اوّل:حدیث نمبر 1737) ہارون بن سعید، ابنِ وہب، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابی انس، سلیمان۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ،’’سفر کیا جائے تین مساجد کی طرف، کعبہ کی مسجد اور میری مسجد، مسجدِ نبویؐ اور مسجد ِاقصیٰ (صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 893)۔
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ ’’مَیں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! دُنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیرکی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا (مکّہ کی) مسجدِ حرام، مَیں نے عرض کیا، پھر کون سی؟ آپ ﷺنے فرمایا (بیت المقدس کی) مسجد ِاقصیٰ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 601)۔ حضرت سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی مجلس میں آپس میں اس بات پر گفتگو کی کہ بیت المقدس کی مسجد (اقصیٰ) زیادہ افضل ہے یا رسول اللہ ﷺ کی مسجد (نبویؐ)؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’میری اس مسجد (نبویؐ) میں ایک نماز (اجروثواب کے اعتبار سے) اس (مسجد ِاقصیٰ) میں چار نمازوں سے زیادہ افضل ہے اور وہ (مسجدِ اقصیٰ) نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔
عن قریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بہ قدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو، جہاں سے وہ بیت المقدس کی زیارت کر سکے (اس کے لیے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا) پوری دنیا یا فرمایا دُنیاومافیہا سے زیادہ افضل ہوگا(مستدرک حاکم8553:،طبرانی اوسط6983:، 8930، شعب الایمان3849:،صحیح الترغیب1179:)۔ نیز، مسجد ِنبویؐ میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے (بخاری1190:،مسلم1394:) ۔یاد رہے کہ مسجد الحرام میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ (ابن ماجہ1406:)
مستدرک حاکم کی حدیث سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے دل مسجدِ اقصیٰ کی محبّت سے لب ریز ہیں ، جسے ان کے دلوں سے کوئی نہیں نکال سکتا، لیکن اس کی زیارت کے سلسلے میں مزید مصائب وآلام کا شکار ہونا ممکن ہے۔ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب حضرت سلیمان بن دائود بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں ۔ ’’(1) یا اللہ ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (دُرست) ہوں ۔(2)یا اللہ! مُجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کونہ ملے۔ (3)یااللہ! جو آدمی اس مسجد (بیت المقدس) میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے، جیسے وہ اُس دن گناہوں سے پاک تھا، جب اُس کی ماں نے اُسے جَنا تھا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کی پہلی دو دُعائیں تو قبول فرمالی ہیں (کہ ان کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے) مُجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دُعا بھی قبول کرلی گئی ہو گی۔‘‘ (سننِ ابن ماجہ 1408:،سننِ نسائی693:)
آج ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی اور مسلمانوں کے قبلۂ اول، بیت المقدس کی بے توقیری کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں اسرائیل کو امریکا کی حمایت کے علاوہ امریکی دفاعی سازو سامان اور افرادی قوّت کی مدد بھی حاصل ہے، جب کہ اس کے برعکس پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کے حُکم ران صرف بیانات کی حد تک ہی محدود ہیں۔
ان سطور کی اشاعت تک غزہ میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زاید افراد بے گھر اور 800 سے زاید معصوم بچّوں سمیت 3ہزار سے زایدافراد شہید ہو چُکے ہیں۔ علاوہ ازیں، اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اشیائے خورونوش سمیت دیگر بنیادی اشیاء کی فراہمی کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا ہے۔ تاہم، اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کے باوجود فلسطینی مسلمانوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد اور قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ کویہودیوں کے چنگل سے آزادی نصیب فرمائے۔ آمین