سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) نے 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
5 صفحات پر مشتمل حکم نامہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ کیس کی آئندہ سماعت 2 نومبر کو دن ساڑھے 11 بجے ہوگی، اس معاملے پر انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر الیکشن کمیشن اور وفاق کو نوٹس کیا جاتا ہے۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ زیر التوا 4 درخواستوں میں سے 3 میں صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر فریق بنایا گیا ہے۔
حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ آئینی درخواست نمبر 36 میں صدر مملکت کی ٹوئٹ کا ذکر ہے، اگر صدر کا الیکشن کمیشن کے بارے میں سوشل میڈیا پر پیغام درست ہے تو اس سے سوالات جنم لیتے ہیں۔
ایس پی سی کے حکم نامے میں استفسار کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر پیغام صدر مملکت کا ہی ہے تو کیا ملک کو ایسے پیغامات سے چلایا جا سکتا ہے؟
حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست میں وکیل نے 12 اگست کو صدر کو خط میں انتخابات کی تاریخ دینے کا کہا۔
درخواست گزار کے وکیل انور منصور نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کی مکمل ذمے داری صدر کی نہیں ہے۔
حکم نامے میں بتایا گیا کہ عدالت نے سوال اٹھایا انتخابات کے علاوہ کوئی آئینی نکتہ اٹھایا گیا تو لارجر بنچ تشکیل دینا ہو گا۔
ایس سی پی کے حکم نامے میں کہا گیا کہ تمام درخواست گزاروں نے یقین دہانی کرائی وہ انتخابات کے معاملے تک ہی محدود رہ کر دلائل دیں گے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزاروں نے بتایا کہ وہ 3 رکنی بنچ پر معترض نہیں ہیں، انتخابات میں تاخیر کے ذمہ داران کے تعین کے عدالتی سوال پر مختلف جوابات آئے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ تمام درخواست گزاروں نے اعتراف کیا کہ عام انتخابات اب 90 دن میں ممکن نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو نوٹس یہ معلوم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ انتخابات کب ہوں گے۔