10اپریل 1986لاہور کے جیالوں کیلئے ایک جشن کا دن تھا، ایسا لگتا تھا کہ لاہوری عید کا تہوار منا رہے ہیں، لیکن یقین نہیں آتا تھا کہ لاہور کو کیا ہوگیا، ایک آمر کے خلاف بغاوت برپا کرنا آسان نہ تھا کیوں کہ شہید بینظیر بھٹو وطن سے باہر جلاوطنی میں دو سال سے زیادہ کے عرصے بعد پاکستان واپس آرہی تھیں اور ایک ایسے شہر میں اتر رہی تھیں جہاں آمریت کیخلاف مزاحمت ابھی مدہم نہ ہوئی تھی، اس شہر کے جیالوں نے سندھی رہنما کے لیے جو قربانیاں دیں انھیں الفاظ میں تحریر نہیں کیا جاسکتا۔ شہید بینظیر بھٹو ایک ایسے وقت میں پاکستان واپس آرہی تھیں جب ضیاءالحق کا پہلے سے ہی ایک سندھی وزيراعظم محمد خان جونیجو سے اختلاف پیدا ہوچکا تھا ایسے میں ایک اور دشمن اور وہ بھی شہید بھٹو کی بیٹی کاوطن واپس آنا اور پھر 10 اپریل 1986 ء کا لازوال استقبال !کیسے ممکن تھا کہ ضیاءالحق کو اس استقبال کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اطلاع نہ دی ہو؟ اور ضیاءالحق نے اس استقبال کو خراب کرنیکی کوشش نہ کی ہو مگر لاکھوں کے لشکر کےآگے ہر قسم کی سازش اپنی موت آپ مر گئی، عوام کا جم غفیر ایک ہی نعرہ لگا رہا تھا ’’جئے بھٹو‘‘۔
لاہور کیلئے لندن سےروانہ ہونے سے پہلے ، شہید بینظیر بھٹو نے لندن ٹائمز میں جاری کردہ ایک بیان کے ذریعے پہلے ہی پاکستانی قیادت کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔ بلکہ وہ جمہوریت کو بحال کرنے اور ملک کی تعمیر کیلئے کام کرنے کے لئے واپس آرہی ہیں۔ آصف علی زرداری اسی مفاہمت کی پالیسی کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔لاہور میں شہید بینظیر بھٹو کی آمد نے پی پی پی کے حامیوں میں ایک نئی جان ڈال دی، نواز شریف کتنے خوش قسمت ہیں کہ انکو کسی ضیاءالحق کا سامنا نہ تھا، پورے ملک کا میڈیا بھی ساتھ کھڑا تھا، طاقتور حلقے بھی اس استقبال کو کامیاب بنانے کے لیے تعاون کر رہے تھے، اور مہم چلانے کیلئے پیسہ بھی کھلا دستیاب تھا لیکن شہید بینظیر بھٹو کو یہ سب سہولتیں میسر نہ تھیں، شہید بی بی نے ایک دن لاہور میں رہنے کے بعد ، پنجاب کے مختلف شہروں کا سفر کیا اور بڑے اجتماعات سے خطاب کیا۔ انھوں نے جنرل ضیاءالحق کو ایک واضح پیغام بھیجاجو اس وقت کوئی سیاسی سرگرمی نہیں چاہتا تھا اور پہلے ہی غیر جماعتی بنیادوں پر رائے شماری کرواچکا تھا اور سیاسی جماعتوں کی بحالی کے معاملے پر وزیر اعظم جونیجو کیساتھ بھی اسکے اختلافات ہو چکےتھے۔ ایسے میں پی پی پی کے جیالوں کی لاہور میں بغاوت اور سیاسی جدوجہد ضیاءالحق کی آنکھ میں کانٹا بن کر چبھ رہی تھی۔ لاہور پہنچنے کے ایک ماہ بعد، شہید بی بی 3 مئی 1986ء کو کراچی پہنچیں۔ انکے استقبال کے جلوس میں کراچی ہوائی اڈے سے مزار قائد تک جہاں عوامی جلسہ گاہ تھی وہاں پہنچنے میں آٹھ گھنٹے لگے۔جنرل ضیاءالحق نے پی پی پی کی قیادت کو متنبہ کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا کہ اگر کوئی محاذ آرائی ہوئی تووہ ایک اور مارشل لا کیساتھ سامنے آئیں گے جو پچھلے سے سخت ہوگا۔خیر بات تو نواز شریف کے استقبال کی کرنی چاہیے کہ ریاستی طاقت کے باوجود، میڈیا حمایت کے باوجود اور امن کے سائے تلے ہوئے استقبال میں لاہوریوں کی عدم شرکت کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف سے لاہور چھن چکا ہے، یہ استقبال پورے ملک سے بلائے گئے کارکنوں کے باوجود ایک شادی کی بارات ثابت ہوا ہے، لاہوری 1986ء کے بعد کوئی قابل ذکر ریکارڈ دوبارہ نہیں بنا سکے ۔ گملوں میں لگائی گئی قیادت کیلئے سڑکوں پر کون جان نچھاور کرتا ہے ؟ شہید بینظیر بھٹو تو شہید بھٹو کی بیٹی تھی اور لاہور کے عوام کو اندازہ تھا کہ بھٹو نے عوام کیلئے سر کٹا دیا تھا۔ وائٹ سیل کے نام پر ملک سے رخصت ہو جانیوالے رہنمائوں کیلئے آخر عوام کیوں سڑکوں پر نکلیں؟