• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ کی جانب سے 9 مئی کو ہونے والے شر پسندانہ اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں عام فوجداری عدالتوں میں منتقل کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، قانونی ماہرین کے ایک حلقے کے نزدیک بنیادی حقوق کے حوالے سے ایک بڑے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے اور ملک میں عدل و انصاف پر مبنی جس نظام کا خواب بانیان پاکستان نے دیکھا تھا اس کے عین مطابق ہے یعنی تمام شہری قانون کے سامنے برابر اور اس کے دائرے کے اندر ہوں۔ تاہم قانون دانوں کے دوسرے حلقے کی رائے میں اس فیصلے سے ملک دشمن عناصر کے حوصلے بڑھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہائوس اور فوجی اہمیت کے متعدد دوسرے مقامات پر حملے کرنے توڑ پھوڑ ، آتش زنی اور شہدا کی یادگاروں کو مسمار کرنے والے قومی مجرم ہیں اور کسی رعایت کے مستحق نہیں ان پر ملٹری کورٹس ہی میں مقدمات چلنے چاہئیں۔ ان کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت اگر درست نہیں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی رو سے ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں۔ انہیں عام معافی نہیں دی جا سکتی، نہ سول عدالتوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے جہاں مقدمات کی سماعت لمبے عرصے تک چلتی رہتی ہے عدالت عظمیٰ نے ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے جو فیصلہ سنایا اس کا اطلاق 9مئی اور 10مئی کے واقعات میں زیر حراست تمام افراد پر ہو گا جن میں ملکی اور غیر ملکی دونوں شامل ہیں عدالتی فیصلے میں ملٹری کورٹس میں اب تک چلنے والے تمام مقدمات کالعدم قرار دئیے گئے ہیں۔ سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے حق میں ایک متنازعہ قرار داد منظور کی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے سویلین بالادستی کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا ہے، سانحہ 9مئی کے واقعات میں ملوث 103 افراد جن کا تعلق پی ٹی آئی سے بتایا جاتا ہے کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ عام شہریوں کے تمام مقدمات سول عدالتوں میں بھیجے جائیں۔ سپریم کورٹ نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے جس کے خلاف اپیل کا حق موجود ہے اور قانونی حلقوں کے مطابق حکومت اس حق کااستعمال کر سکتی ہے۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں سابق چیف جسٹس کے دور میں دائر کی گئی تھیں جنہوں نے انہیں غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا تھا۔ موجودہ چیف جسٹس نے لارجر بنچ بنا کر ان کی سماعت کا حکم دیا۔حکومت نے اپیل دائر کی تو اس کی سماعت سپریم کورٹ کافل بنچ کرے گا۔ جس کاحکم حرف آخر ہو گا۔ سانحہ 9 مئی ملک کے اندر اپنے شہریوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملے کا اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے جس پر پوری قوم سوگوار ہے۔ اس میں جو بھی لوگ ملوث ہیں انہیں فوجی عدالتوں سے نہیں تو سول فوجداری عدالتوں سے ضرور قرارواقعی سزائیں ملنی چاہئیں تاکہ یہ صرف 9 مئی کے کیسز ہی نہیں آنے والے وقتوں میں بھی عبرت کی مثال کے طور پر یاد رکھی جائیں۔مسلح افواج ملک کی سرحدوں کی محافظ ہیں۔ قوم ان کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے اور ان سے محبت کرتی ہے۔ انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش سے بڑا جرم کوئی نہیں ہو سکتا۔ سانحہ 9 مئی اسی نوعیت کی کوشش تھی، جس میں ملوث افراد کا محاسبہ ناگزیر ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں شروع ہی سے اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں عمل دخل رہا ہے۔پہلے بیوروکریسی اقتدار پر قابض رہی اس کے بعد فوجی آزمائے جس سے سویلین بالادستی کا تصور ماند پڑگیا۔سپریم کورٹ کا فیصلہ اس حوالے سے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتاہے۔

تازہ ترین