صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس انہوں نے نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم ہاؤس سے آیا تھا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں دیے گئے انٹرویو میں عارف علوی نے کہا کہ بعد میں سابق وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ وہ ریفرنس بھیجنا نہیں چاہتے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی سے پوچھیں انہیں کس نے ریفرنس بھیجنے کا کہا تھا؟
نواز شریف کی مینار پاکستان پر تقریر کے سوال پر صدر عارف علوی نے کہا کہ نواز شریف کی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات اچھی ہے، عوام نے اگلے دن کے سروے میں نواز شریف کے بیان کی حمایت کر کے ن لیگ کو وہ بیانیہ دے دیا، جس کی انہیں تلاش تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی تعریف کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے حکومت میں آکر جیلوں میں تشدد کا وہ ماحول بدل دیا جو ضیاء الحق دور کی پہچان تھا، پیپلز پارٹی کو جمہوریت کی، عورتوں کے حقوق کی بات کرنے کا اور "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگانے کا کریڈٹ دوں گا۔
صدر مملکت نے کہا کہ اگر وہ ایوان صدر میں نہ ہوتے تو آج خود بھی جیل میں ہوتے، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) آج بھی ان کے لیڈر ہیں۔
ایک سوال پر عارف علوی کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 57 میں ترمیم آئین کے خلاف ہے، اگر وہ ایوان صدر میں ہوتے اور حج پر نہ گئے ہوتے تو کبھی الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم پر دستخط نہیں کرتے۔
صدر مملکت نے مزید کہا کہ یقین نہیں کہ جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن ہوں گے، آئین کہتا ہے اگلا صدر منتخب ہونے تک موجودہ صدر اپنی ذمہ داریاں جاری رکھے گا، پارلیمانی نظام میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ حکومت مدت پوری نہ کر پائے، پاکستان بڑی مشکلات کے ساتھ جمہوریت کے نظام پر قائم ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے خط کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے الیکشن کمشنر کو بلایا لیکن وہ نہیں آئے، پھر میں نے وزیر قانون کو بلایا تو انھوں نے لکھ بھیجا کہ آپ کا یہ حق نہیں ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ مردم شماری کے معاملات پر مسائل آرہے تھے، میں نے کہا تھا کہ 6 نومبر یا اس سے پہلے الیکشن کروائے جائیں، وزارت قانون نے مجھےکہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا میرا حق نہیں، پرنسپل سیکریٹری کو ہٹا کر لکھ دیا تھا کہ میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں۔