• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلاک ڈکشنری میں شوہدا کے اور معانی کے علاوہ اس کا مطلب ’بیچارہ،نمانا اور مظلوم ‘ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی عدالتوں کی پیشی کے موقع پر واسکٹ کے بغیر، بکھرے بالوں اور مچڑے ہوئے کپڑوں کی فوٹیج دیکھ کر مجھے ان پر بہت ترس آتا ہے، بڑھاپے میں اسیری کاٹنا ان کے مقدر میں ہوگا یہ کبھی سوچا تک نہیں تھا، وہ منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہوئے، مہنگے ترین گھروں میں رہے، پر تعیش گاڑیوں میں سفر کرتے رہے انکی سیاست ہمیشہ سے’ جیو اور جینے دو‘ پر مشتمل رہی وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر سیاست کرتے رہے کوئی، صحافی یا سیاست دان اگر مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کر رہا ہوتا تو چودھری اسے بلا کر سمجھاتے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ خاندان نہ صرف خود فوج اور مقتدرہ کا وفادار رہا بلکہ دوسروں کو بھی نصیحت کرتا رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت ترک کر دیں اس طویل اور غیر مشروط وفاداری کے باوجود آج اگر وہ اسیری کاٹتے نظر آتے ہیں تو بے اختیار انہیں شوہدا کہنے پر دل کرتا ہے۔

چودھری خاندان سے لاکھ سیاسی اختلاف سہی لیکن وہ ہمیشہ سے وضعداری اور رواداری کے امین رہے ہیں، آصف زرداری جیل میں تھے تو چودھری شجاعت نے انہیں بے نظیر بھٹو کے ساتھ ریسٹ ہائوس میں رہنے کی سہولت فراہم کی یہی چودھری خاندان تھا جس نے نواز شریف کا اتحادی ہوتے ہوئے آصف زرداری کو منشیات کے جھوٹے مقدمہ میں پھنسانے کی مخالفت کی تھی، یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب شریف خاندان ابتلا کے دور سے گزر رہا تھا اور چودھری خاندان جنرل مشرف کا اتحادی تھا اس وقت بھی وہ اقتدار میں بیٹھ کر اپنے مخالف شریف خاندان کے ساتھ اچھے سلوک کی وکالت ہی کرتے رہے۔ ایک زمانے تک چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی نہ صرف سیاست اکٹھی تھی بلکہ سوچ اور حکمت عملی بھی ایک ہوا کرتی تھی ۔پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد چودھری شجاعت اور چودھری پرویز کی سیاسی راہیں جدا ہو گئیں مگر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ سیاسی اختلاف سے ہٹ کر ان کے باقی نظریات میں بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں گویا رواداری ،وضعداری دونوں کے اندر موجود ہے ۔

چودھری پرویزالٰہی کہنے کو تو پی ٹی آئی کے صدر ہیں مگر عملی طور پر اپنی جماعت کی مزاحمتی سیاست سے کوسوں دور ہیں۔ سانحہ 9مئی میں ان کا کوئی کردار سننے میں نہیں آیا بلکہ وہ تو پی ٹی آئی چیئرمین کو بار بار سمجھاتے رہے کہ فوج سے بنا کر رکھیں۔وہ تو اسمبلیاں توڑنے کے بھی خلاف تھے مگر ہمارے دوست چودھری فواد، چیئرمین پی ٹی آئی اور دوسرے جارحیت پسند لیڈروں نے انہیں مجبور کرکے اسمبلی تڑواڈالی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں فیصلے ان کے ہاتھ میں ہوتے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی کےطور پر ہی سیاست کرتے۔گرفتاری سے کچھ عرصہ پہلے ہمارے پولیس آفیسر دوست فیاض دیو کے بچے کی شادی پر چودھری پرویز الٰہی سے میری ملاقات ہوئی تو میں ان سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ آپ تو زندگی بھر فوج کی لائن لیتے رہے اب ایسا کیا ہوا کہ آپ نے دوسرا راستہ اپنالیا۔انہوں نے فرینکلی جواب دیا کہ اسٹیبلشمنٹ خود واضح رائے نہیں رکھتی تھی جنرل باجوہ تک کے زمانے میں انہیں خود نہیں پتہ تھا کہ کونسا راستہ اختیار کرنا ہے اسی کنفیوژن میں ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ۔چودھری پرویزالٰہی نے یہ فیصلہ خود کیا، کسی جنرل یا ریٹائرڈ جنرل کے کہنے پر کیا یا مونس الٰہی کی مستقبل کی سیاست ان کے پیش نظر تھی ان میں سے کوئی بھی وجہ ہو ان کا یہی فیصلہ انکے گلے کی پھانس بن کر رہ گیا ہے۔

اس کالم نگار کو چودھریوں کی سیاست سے کبھی اتفاق نہیں رہا چودھری ظہور الٰہی پہلے بھٹو کے مخالف تھے پھر اسی مخالفت کی رو میں جنرل ضیاءالحق کے ساتھی بن گئے بھٹو نے انہیں جیل میں رکھا تھا جواباً انہوں نے بھٹو کی پھانسی کے حکم کی توثیق کرنے والا جنرل ضیاء الحق کا قلم بڑے شوق سے تحفے میںلے لیا۔ اینٹی بھٹو سیاست کے زمانے میں ہی دونوں کزن چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی سیاسی میدان میں اترے بعدازاں وہ بھٹو مخالف آئی جے آئی اور پھر نواز شریف کےساتھ رہے، جنرل مشرف نے مارشل لا لگایا تو چودھری خاندان نے ان کاساتھ دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں نواز شریف سے بہت سے گلے شکوے تھے۔ چودھری خاندان نے اپنی سیاست کو عوامی بنانے یا مقبول رکھنے کی بجائے اسے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی اور ہم سفر بنانے پر ہی فوکس رکھا ہے ،تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ وہ مقتدرہ کی مخالف سائیڈپر بیٹھے ہیں۔ چودھریوں کی سیاست سے اختلاف کے باوجود یہ کالم نگار ہمیشہ سے اس خاندان کی وضعداری اور مہمان نوازی کا قائل رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی جب بھی کسی صحافی کو اداروں کے عتاب کا شکار دیکھتے اسکی مدد کی کوشش ضرور کرتے ۔مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ جب جنگ میڈیا گروپ مشکل میں آیا، چودھری پرویز الٰہی نے ہمیشہ کوشش کی کہ اسے مشکل سے نکالا جائے، مجھے خود بھی چودھری پرویز الٰہی نے کئی بار گھر بلا کر اور میرے گھر آکر یہ مشورہ دیا کہ آپ مقتدرہ سے بنا کر رکھیں ان واقعات کی بنا پر یہ گواہی دی جا سکتی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی سر تا پا صلح اور امن کے پجاری ہیں اب وہ خود مشکل میں ہیں ایسے میں ان کیلئے کلمہ خیر نہ کہنا زیادتی ہوگی۔

میری ذاتی رائے میں اگر پی ٹی آئی نے بحران سے نکلنا ہےتو چودھری پرویز الٰہی کے تدبر، معاملہ فہمی اور عقل سے فائدہ اٹھائے، چیئرمین تحریک انصاف انہیں مقتدرہ کےساتھ معاملات طے کرنے کا ٹاسک دےتو ہو سکتا ہے کہ 9مئی اور تحریک انصاف کی دوسری فاش غلطیوں کا تدارک ہوسکے۔ دوسری طرف موجودہ حکومت اور پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں سے بھی عرض ہے کہ صلح جو اور ملک کے خیر خواہ چودھری پرویز الٰہی کو جیل میں رکھ کر کچھ بھلا نہیں ہو گا انکی پوری زندگی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ فوج اور ملکی اداروں کے ساتھ مخالفت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔میری رائےیہ ہو گی کہ اسٹیبلشمنٹ شوہدے چودھری پرویز الٰہی کے بڑھاپے اور انکے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ نرمی والا رویہ اپنائے وہ شوگر اور بہت سی بیماریوں کے دائمی مریض ہیں جیل میں انکی بیماریوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہونگی ۔ ملکی اداروں کو کسی نہ کسی دن تو مخالف سیاسی عناصر سے ڈائیلاگ کرنا ہو گا کیونکہ ہر لڑائی کا انجام تو ڈائیلاگ ہوتا ہے اگر تحریک انصاف سے ڈائیلاگ کرنا ہےتو چودھری پرویز الٰہی سے بہتر کوئی اور آدمی نہیں ہوسکتا۔ چودھری پرویز الٰہی کوبھی جیل کی سختیوں سے کچھ نہ کچھ سبق ملا ہوگا اور وہ بھی چاہیں گے کہ ملک کے اندر قومی مصالحت کی بنیاد رکھی جائے۔

آخر میں توقع یہی ہے کہ چودھری پرویزالٰہی کا امتحان ختم ہو گا اور دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی کو بھی اپنے تدبر سے پی ٹی آئی کی محاذ آرائی کی پالیسی کو ختم کرکے اسے قومی مصالحت کی طرف لانا ہوگا۔ ملک کے مسائل کا حل لڑائی نہیں بلکہ مل کر بیٹھنا ہے۔

تازہ ترین