• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیر اعظم نوازشریف وطن واپس آچکے ہیں۔ لاہور میں فقید المثال استقبال کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد مسلسل دو ہفتوں سے عدالتوں کا سامنا کررہے ہیں۔لیکن ایک مخصوص طبقہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی ایک ڈیل کا نتیجہ ہے۔نواز شریف کے ناقدین سمجھتے ہیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے ڈیل کرکے نواز شریف واپس آئے ہیں۔ان کا خیال یہ ہے کہ آئندہ چند دنوں میں نوازشریف پر عدالتی ریلیف کی برسات ہونے جارہی ہے۔سیاسی میدان میںبھی نوازشریف کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی موجود نہیں ہوگا اور یوں نوازشریف باآسانی پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔یہاں تک اندازے لگائے جارہے ہیں کہ سندھ سے پی پی پی کو بھی آؤٹ کرکے ایک مخلوط حکومت تشکیل دی جائے گی اور یوں مسلم لیگ ن ڈیل کی صورت میں اقتدارحاصل کرلے گی۔لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔

21 اکتوبر کے جلسے نے یہ تو طے کردیا ہے کہ مسلم لیگ ن اس وقت بھی پنجاب کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے ۔نوازشریف کو چھ سال قبل جس طرح سے نااہل کیا گیا،پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔دو روز قبل نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں اعتراف کیا کہ نوازشریف کے خلاف ریفرنسز سپریم کورٹ کے حکم پر دائر کئے گئے تھے۔یعنی کیس کے میرٹ کو دیکھے بغیر نیب نے ریفرنسز صرف اس لئے دائر کئے ،کیونکہ سپریم کورٹ کے ایک مخصوص بنچ کی خواہش تھی کہ کسی طرح نوازشریف کو جیل میں ڈال دیا جائے۔کیا اس وقت عدالتیں اور ادارے جو کچھ نوازشریف کے ساتھ کررہے تھے ،کیا وہ ان کی عمران خان سے ڈیل تھی؟ ترقی کرتے ہوئے ملک کو پٹڑی سے اتار دیا گیا کہ عمران خان کو لانا ہے۔کیا وہ ڈیل نہیں تھی؟ چھ ہفتوں میں نیب ریفرنسز کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا،سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کی بھی خدمات سرانجا م دیں۔کیا وہ بھی ایک ڈیل کا نتیجہ تھا۔نوازشریف کی اگر سیاسی زندگی پر روشنی ڈالی جائے تو گزشتہ 24سال کے دوران نوازشریف نے 13سال جلاوطنی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔کیا ڈیل کرنے والا شخص اپنی زندگی کے قیمتی 13سال قید و بند اور جلا وطنیوں کو دیتا ہے۔نواز شریف نے 2008،2013اور پھر2018کا الیکشن جن حالات میں لڑا۔وہ بھی بیا ن کرنا چاہئے۔کیونکہ ہم من حیث القوم جھوٹ اور منفی پروپیگنڈے کو تیزی سے قبول کرتے ہیں۔ہم گلاس کو آدھا خالی بتانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیںحالانکہ گلاس آدھا بھرا ہوا بھی ہوتا ہے۔ہم میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کی سوچ سے آگے نہیں نکل سکے۔آپ نے جس وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کردیا،ایک پاناما اسکینڈل کو جواز بنا کر، پورے ملک کی معیشت کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں،تیزی سے ترقی کرتا ہوا پاکستان پستیوں میں چلا گیا اور آج ہم کہتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی ایک ڈیل کا نتیجہ ہے۔

نوازشریف سے واقعی اداروں نے ڈیل کی ہے۔ لیکن وہ ڈیل کیا ہے؟ قارئین کے گوش گزار کردیتا ہوں۔آج قومی اداروں کو خود اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ پروجیکٹ عمران ان کی تاریخی غلطی تھی۔پاکستان کی مقتدرہ اس بات پر متفق ہے کہ عمران کو مقبول بنانے کے لئے نوازشریف کے خلاف چور،چور کا جو بیانیہ بنایا گیا۔اس کی اصل قیمت ملک کو چکانی پڑی ہے۔ادارے دل سے جانتے ہیں کہ جس طرح عدالتوں اور ججوں کو نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور کیا گیا،اس کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کے غریب عوام کا ہوا ہے۔نوازشریف کے خلاف ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں جان بوجھ کر ایسی معلومات اکٹھی کی گئیں ،جن میں کریمنل غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔پراسکیوشن نے وہ تمام ثبوت صفحہ مسل سے غائب کردئیے ،جو نوازشریف کے حق میں جاتے تھے۔اگر خط و خطابت ابوظہبی کی حکومت سے کرنی تھی تو خط دبئی کو لکھ دیا گیا۔پورا والیم ٹین ایک مذاق تھا۔آج اداروں کو یہ ادراک ہوگیا ہے کہ نوازشریف کے خلاف فیصلے دراصل ملکی معیشت کے خلاف فیصلے ثابت ہوئے تھے اور معیشت ایک ہی صورت میں کھڑی ہوسکتی ہے کہ نوازشریف کو واپس لایا جائے اور وہی واحد شخص ہے جو ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکتا ہے۔لیکن نوازشریف نے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے سے صاف انکار کردیا تھا۔بار بار انہیں کہا گیا کہ اداروں کو اپنی غلطیوںکا شدت سے احساس ہے اور تمام ادارے اپنی غلطیاں درست کرنا چاہتے ہیں۔آپ کی عزت اور وقار کو دوبارہ بحال کرنا ادارے پر ایک قرض ہے۔مگر اس وقت ملک کو آپکی اشد ضرورت ہے اور پاکستان آکر ملک کی قیادت کریں۔غریب آدمی کا چولھا بجھ چکا ہے۔معیشت آخری سسکیاں لے رہی ہے۔ایسے میں آپ ہی واحد قومی لیڈر ہیں ،جس پر قومی و بین الاقوامی کاروباری دنیا اعتماد کرتی ہے۔آج اگر نوازشریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے کوئی ریلیف ملا ہے یا آئندہ آنے والے چند دنوں میں مزید کوئی ریلیف ملے گا تو یاد رکھیں یہ ان ناانصافیوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی جارہی ہےجو نوازشریف کے ساتھ گزشتہ 24سال سے ہوتی آئی ہیں۔ باقی پی پی پی کی موجودہ ناراضی فطری ہے،کیونکہ ادارے سندھ کے حوالے سے بھی واضح لائن لے چکے ہیں۔سندھ کےعوام کو مزید کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔بلکہ اس مرتبہ سندھ میں بھی بڑے سرپرائزز پی پی پی کے منتظر ہونگے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین