• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی وی پر پہلا گانا نشر ہوا، تو والد کے خوف سے گھر کی بجلی منقطع کردی

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

عبداللہ غزنوی کو اپنی فنی صلاحیتوں کی بہ دولت پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی گلوکاری اور اداکاری کے لیے وقف کر دی۔ وہ ٹی وی، ریڈیو، اسٹیج اور بڑی اسکرین پر اپنے فن کے جوہر دکھا چُکے ہیں۔ 

عبداللہ غزنوی نے پی ٹی وی، کوئٹہ سینٹر کے مشہور ڈراما سیریل، ’’پالے شاہ‘‘ سے اپنے ٹی وی کے کیریئر کا باقاعدہ آغاز کیا، جب کہ وہ اردو کے علاوہ پشتو اور براہوی سمیت دیگر علاقائی زبانوں کے درجنوں ڈراما سیریلز سمیت9فلمز میں بھی کام کر چُکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہماری اُن سے ان کے حالاتِ زندگی اور شوبِز کی دُنیاکے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی، جو نذرِ قارئین ہے۔

س :اپنے خاندانی پس منظر اور حالاتِ زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ج: میرے آبائو اجداد نے آج سے کم و بیش ایک سو برس قبل معاش کے سلسلے میں بلوچستان نقل مکانی تھی۔ وہ قالین کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ مَیں 1945ء میں کوئٹہ کے علاقے، ہدہ میں پیدا ہوا اور میری پیدایش کے دو برس بعد ہی 1947ء میں والد صاحب اس دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ باپ کا سایہ سَر سے اُٹھنے کے بعد مختلف رشتے داروں کے ہاں پلا بڑھا۔

گرچہ اوائل عُمری ہی میں انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کیا، لیکن اُس دَور کے لوگوں میں پائے جانے والے جذبۂ ہم دردی نے مُجھ جیسے یتیم بچّے کو گُم راہی سے بچا لیا۔ 1973ء میں شادی ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا، جن میں سے ایک جواں سال بیٹے اور بیٹی کا انتقال ہو چُکا ہے۔ 

سب سے بڑا بیٹا، نصیب غزنوی بلوچستان چلتن ایڈونچر سے وابستہ اور قومی سطح پر کے ٹو سَر کرنے والی ٹیم کا حصّہ تھا۔ چوٹی سَر کرنے کے بعد جب اُن کی ٹیم واپس آ رہی تھی، تو راستے میں بس کو حادثہ پیش آ گیا، جس کے نتیجے میں میرا بیٹا شہید ہو گیا، جب کہ میری شادی شُدہ بیٹی برین ہیمبرج کے سبب چل بسی۔ بہر کیف، مَیں نے ہمیشہ دُکھوں کو قدرت کی طرف سے آزمایش سمجھتے ہوئے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا۔

س :شوبِز کی طرف کیسے راغب ہوئے؟

ج: مَیں بچپن ہی سے فلمز دیکھنے کا شوقین تھا اور تب پیسے نہ ہونے کے سبب خواتین کے شو میں فلمز دیکھنے جاتا تھا۔ 1964ء میں ایک فلم میں دلیپ کُمار کی ادکاری سے اس قدر متاثر ہوا کہ اداکار بننے کا فیصلہ کیا۔ میرے شوق اور لگن کو دیکھتے ہوئے گورنمنٹ سنڈیمن ہائی اسکول میں حصولِ تعلیم کے دوران مُجھے ایک اسٹیج ڈرامے میں اداکاری کے جوہر دکھانے کا موقع دیا گیا۔

میرا پہلا ڈراما ’’بدر بن مغیرہ‘‘ تھا۔ اس ڈرامے میں اساتذہ اور طلبہ نے میری کارکردگی کو خُوب سراہا۔ اداکاری کے ساتھ ہی مَیں نے گائیکی کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ اس ضمن میں استاد عبداللہ شاہ سے شناسائی ہوئی، تو انہوں نے مُجھے استاد ارباب خان کھوسہ کے حوالے کر دیا۔ 

پھر سیّد عنایت شاہ تک رسائی حاصل کی اور ملکۂ موسیقی روشن آراء بیگم سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی، جنہوں نے کشمیر کا مشہور ترانہ بھی گایا۔ بعد ازاں، براہوی زبان کے مشہور گلوکار، حضور بخش مستانہ نے میرے سَر پر دستِ شفقت رکھا۔ اُن کی بیگم چٹنی اور روٹی سے میری خاطر تواضع کرتی تھیں۔ وہ مُجھ سے اکثر کہا کرتی تھیں کہ گانے کے ساتھ تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ ان ہی کے اصرار پر مَیں نے بی اے کیا اور پھر بینک آف بہاول پور میں ملازمت حاصل کی، جو ایک سال بعد ہی نیشنل بینک میں ضم ہو گیا۔ 1997ء میں مَیں نے گولڈن ہینڈ شیک لے کر بینک کی نوکری کو خیر باد کہا اور شوبِز کی دُنیا میں باقاعدہ قدم رکھ دیا۔

س: آپ نے بہ حیثیتِ گلوکار کہاں کہاں پرفارم کیا؟

ج : ٹی وی اور ریڈیو کے علاوہ مَیں نے مختلف محافلِ موسیقی میں اور ممتاز گلوکاروں کے ساتھ اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ایک مرتبہ مُجھے سبّی میلے میں منعقدہ محفلِ موسیقی میں مدعو کیا گیا۔ اس محفل میں عابدہ پروین، سلیمان شاہ، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور خیال محمّد کو بھی دعوت دی گئی تھی، جب کہ اُس وقت کے گورنر بلوچستان، جنرل موسیٰ تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔

سب سے پہلے مُجھے اسٹیج پر بُلایا گیا۔ ابھی مَیں ایک گانا گا ہی رہا تھا کہ جنرل موسیٰ کی نواسی نے مُجھ سے ایک مشہور فارسی گیت گانے کی فرمائش کردی۔ چُوں کہ مُجھے اُن کی فرمایش کا اندازہ تھا، لہٰذا مَیں نے وہ فارسی گیت گانا شروع کر دیا۔ اس گانے کے ابتدائی بول کچھ یوں تھے کہ ؎ یار آمد او من طاقت دیدار نہ دارم…از خود گِلہ دارم از یار نہ دارم۔ مَیں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ جنرل موسیٰ موسیقی کے دِل دادہ تھے اور صوبے کی معروف شخصیت، فتح خان ہر سال 14اگست کو محفلِ موسیقی منعقد کیا کرتے تھے، جس میں جنرل موسیٰ ضرور شریک ہوتے۔ 

خیر، مَیں نے وہ فارسی گانا گایا، تو حاضرین جُھوم اُٹھے اور اس کے بعد تو فرمائشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس محفل میں مَیں نے بلوچی، سندھی، پشتو، براہوی اور پنجابی سمیت تقریباً تمام علاقائی زبانوں کے گانے سُنائے۔ حالاں کہ شرکائے محفل مُجھ سے ابھی مزید گانے سُننا چاہتے تھے، لیکن مَیں نے اُن سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اس محفل میں مُلک کے نام وَر گلوکار شریک ہیں، جو ہمارے مہمان ہیں۔ سو، اب وہ اُن کی گلوکاری سے محظوظ ہوں۔ 

بعد ازاں، اسٹیج پر آنے والے گلوکاروں نے یہ کہہ کر میرے فن کا اعتراف کیا کہ ’’آج عبداللہ غزنوی نے میدان مار لیا، ہم تو صرف رسمی کارروائی پوری کر رہے ہیں۔‘‘ مَیں یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مَیں نے کبھی بھی کسی محفل میں شرکت کے لیے پیشگی شرایط نہیں رکھیں اور نہ ہی کبھی معاوضہ طے کیا ۔مُجھےجو بھی رقم ملتی یا مُجھ پر نچھاور کی جاتی، تو وہ مَیں اپنے سازندوں میں تقسیم کر دیتا۔

س: اب تک کتنی فلمز میں اداکاری کے جوہر دکھا چُکے ہیں؟

ج: مَیں نے اب تک 9فلمز میں اداکاری کی ہے، جن میں ’’قندھار بریک‘‘، ’’عبداللہ‘‘، ’’مور‘‘، ’’آپریشن زیرو ٹو ون‘‘، ’’دُختر‘‘ ، ’’کوئٹہ ‘‘ اور ’’پنجاب نہیں جائوں گی‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔

س: ریڈیو اسٹیشن تک رسائی کیسے ہوئی؟

ج: اس سلسلے میں سنڈیمن اسکول کے ماسٹر حسن نے میری رہ نمائی کی۔ ابتدا میں سریاب روڈ، کوئٹہ میں قائم ریڈیو اسٹیشن میں مختلف پروگرامز میں حصّہ لیتا رہا۔ پھر 18برس تک پشتو زبان کے ایک زرعی پروگرام میں کام کیا، جب کہ اسی دوران موسیقی اور اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

س: ٹی وی کی طرف کیسے آئے؟

ج: کوئٹہ سینٹر سے 1974ء میں پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا، تو ایک روز میرے ایک ہم جماعت، جو بعد ازاں پی ٹی وی کے جی ایم بھی بنے، مُجھے اپنے ساتھ بینک سے سیدھا کینٹ میں قائم پی ٹی وی اسٹیشن لے گئے۔ وہاں انہوں نے مُجھے پروڈیوسر، توفیق اعجاز اور اُن کی اہلیہ، منوّر تو فیق سے ملوایا۔ منوّر توفیق نے، جو غالباً پنجاب کی پہلی خاتون انائونسر تھیں، میرے سامنے ہارمونیم رکھ کر گانے کے لیے کہا۔ خوش قسمتی سے اُنہیں میری گائیکی پسند آئی اور پھر کچھ ہی عرصے بعد کوئٹہ اسٹیشن سے میرا پشتو گانا نشر ہوا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی:رابرٹ جیمس)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی:رابرٹ جیمس)

س: آپ کا پہلا اردو ڈراما سیریل کون سا ہے؟

ج: مَیں نے ڈراما سیریلز میں کام کرنے کا کبھی نہیں سوچا تھا۔ تاہم، ایک روز اچانک معروف اداکار، جمال شاہ میرے پاس بینک آئے اور مُجھے اردو سیریل، ’’پالے شاہ‘‘ میں اداکاری کی پیش کش کی۔ مَیں نے پیشہ ورانہ مصروفیات کا عذر پیش کیا، لیکن انہوں نے ایک نہ سُنی اور مُجھےاس ڈرامے میں کاسٹ کر لیا گیا۔ 

اس موقعے پر ’’پالے شاہ‘‘ کے پروڈیوسر، در محمد کاسی نے آڈیشن دینے کے لیے کہا، تو مُجھے اُن کی یہ بات غیر مناسب لگی۔ بہرکیف ،دوستوں کے اصرار پر اسکرپٹ سے ہٹ کر ڈائیلاگ ڈیلیوری دی، تو پروڈیوسر بھی دنگ رہ گئے۔

س: اب تک کتنے اردو، پشتو اور براہوی ڈراما سیریلز میں کام کر چُکے ہیں؟

ج: مُجھے ڈراما سیریلز کی صحیح تعداد تویاد نہیں، البتہ ان میں چاکرِ اعظم، بخت نامہ، پالے شاہ، مثال، حیا، مئی، دال، دشت، وفا، تم ہو کہ چُپ، مسافری خواری، بے بنگلہ لاسونہ، ارمانونہ، جانان ، دب ہی تہ روانے اور ونڈ قابلِ ذکر ہیں۔

س: آپ کو اپنی فنی خدمات کے سلسلے میں اب تک کتنے ایوارڈز مل چُکے ہیں؟

ج: یہ سوال پوچھ کر آپ نے میرے زخم ہرے کر دیے … ویسے سچّی بات تو یہ ہے کہ مَیں اس بارے میں سوچتا ہی نہیں ہوں۔ البتہ اگر کوئی ایوارڈ کے بارے میں پوچھتا ہے، تو رنجیدہ ضرور ہو جاتا ہوں۔ مَیں نے اپنی زندگی اداکاری اور گلوکاری کے لیے وقف کر دی، لیکن آج تک کوئٹہ کینٹ میں منعقدہ ایک تقریب میں ’’ایکسی لینس ایوارڈ‘‘ سے نوازنے کے علاوہ سرکاری سطح پر کوئی خاطر خواہ حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، مگر مَیں اپنے چاہنے والوں کی طرف سے ملنے والی محبّت اور عزّت و احترام ہی کو سب سے بڑا ایوارڈ سمجھتا ہوں۔

س: کیا آپ نے شاعری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی؟

ج: چوں کہ موسیقی اور شاعری کا آپس میں گہرا ربط ہے، تو مَیں نے بھی اردو اور پشتو شاعری کی ہے۔ مَیں یہاں اپنا ایک شعر نمونے کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ؎ اپنا قصور تھا انہیں ملاّح بنالیا…وہ جالگے کنارے مجھے طوفاں میں چھوڑ کر۔

س: شوبز کی دُنیا میں آپ کے شاگرد بھی ہیں؟

ج: حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’اگر کوئی گھر پہنچنے میں آپ کی مدد کرے، تو وہ بھی آپ کا استاد ہے۔‘‘ نئے گلوکار اور اداکار رہ نمائی کے لیے میرے پاس آتے ہیں اور مَیں نے اُنہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ موسیقی کے اسرار و رموز سمجھنے کے لیے جن افراد نے مُجھ سے سب سے زیادہ رابطہ کیا، ان میں مستونگ کے عبدالکبیر اور محمّد انور دُمڑ سرِ فہرست ہیں اور وہ بھی مُجھے اپنا استاد قرار دیتے ہیں۔

س: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ کوئٹہ کا ماحول فن کی آب یاری کے حوالے سے غیر موزوں ہے؟

ج: پورے پاکستان کا ماحول ہی ایسا ہے، البتہ کوئٹہ کچھ زیادہ متاثرہوا ۔

س: کیا ان دنوں فن کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے سرکاری سطح پر کوئی اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

ج: میری عُمر اس وقت 77برس ہے اور مَیں اب بھی بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں، جب کہ میری طرح دیگر فن کاروں کی بھی یہی خواہش ہو گی، لیکن ہم سب حکومت اور متعلقہ محکموں کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں ہمارا کھویا ہوا مقام کب لوٹائیں گے۔ فی الحال ایّوب کھوسہ اور اے ڈی بلوچ سمیت دیگر فن کاروں کی کوششوں سے حکومت کی جانب سے ادارۂ ثقافت کی زیرِ نگرانی اعزازیے کے طور پر ماہانہ 20کروڑ روپے مستحق فن کاروں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ 

ہم فن کار تو اپنے ہُنر سے معاوضہ کمانے کے قائل ہیں، لیکن بہ امرِ مجبوری یہ سب قبول کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے اہلِ بست و کشاد کو اپنی شوبِز انڈسٹری کی ترقّی کے لیے غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تُرکیہ سمیت دیگر غیر ملکی ڈراموں کے ساتھ مقامی ڈراموں کی پذیرائی کی جائے، تو یہ زیادہ قرینِ انصاف ہو گا۔ فن کاروں کے احساسِ محرومی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو کسی طور دُرست نہیں۔ ارباب ِاختیار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ فن کا گلا گھونٹنے سے معاشرہ مزید گھٹن کا شکار ہوگا۔

س: آپ کو کون کون سے آلاتِ موسیقی پر مہارت حاصل ہے؟

ج: مُجھے ہارمونیم پر مہارت حاصل ہے، جب کہ اس کے علاوہ رباب اور ستار بھی بجا لیتا ہوں۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج: جب کوئی چیز وافر ہو یا اُسے خریدنے کی سکت ہو، تو پھر ہم پسند و نا پسند کی بات کرسکتے ہیں، جب کہ اس وقت تو دال، روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بہر کیف، خود بھی خوش ذوق، خوش خوراک ہوںاورمُجھے کھانے پینے اور پہننے کا عُمدہ ذوق رکھنے والے افراد پسند ہیں، جن میں میرے کئی دوست بھی شامل ہیں، لیکن اُن سے حسد کرنے کی بہ جائے اپنے حق میں دُعا کرتا ہوں۔

س: کوئی ایسی بات کہ جسے سوچ کر آپ کے دل میں کَسک سی اُٹھتی ہو؟

ج: مَیں نے مفلسی کو نہایت قریب دیکھا ہے، لہٰذا خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح دُکھی انسانیت کے کام آ سکوں۔

س: شوبِز سے وابستگی کی وجہ سے کبھی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا؟

ج: بہت زیادہ۔ ہمارے خاندان میں فن کاروں کو نا پسند کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں طویل عرصے تک چُھپ کر کام کرتا رہا اور جس روز ٹی وی پر میرا پہلا گانا نشر ہو رہا تھا،تو مَیں نے گھر کی بجلی ہی منقطع کر دی، تاکہ میرے سوتیلے باپ کو پتا نہ چل سکے، لیکن ہم سایوں نے انہیں بتا دیا۔ پھر چند روز ناراضی رہی، لیکن جب لوگوں نے میرے کام کی تعریف کی اور وہ مُجھ سے گھر ملنے آنے لگے، تو سوتیلے باپ سمیت دیگر اہلِ خانہ بھی مُجھ پر فخر کرنے لگے۔

س: اب بھی ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن آنا جانا لگا رہتا ہے؟

ج: کام ملے تو ضرور جاتا ہوں۔ البتہ ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنز کی عمارات میں ویرانی اور چوہے دوڑتے دیکھ کر بے حدافسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً دوستوں کے ساتھ مل کر موسیقی کی کوئی نہ کوئی تقریب منعقد کرتا رہتا ہوں، تاکہ صلاحیتوں کو زنگ نہ لگ جائے۔ حال ہی میں ایک نوجوان و ہو نہار سینئر پروڈیوسر فہیم شاہ کوئٹہ سینٹر کے جنرل منیجر مقرّر ہوئے ہیں۔

ان کی کارکردگی اطمینان بخش ہے اور اب ٹی وی اسٹیشن کی رونقیں پھر سے بحال ہو رہی ہیں۔ مَیں اربابِ اختیار اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے التجا کرتا ہوں کہ وہ تن آسانی ترک کر کے مُلک کے گوشے گوشے سے باصلاحیت افراد کو تلاش کر یں اور اُن کے فن کی پذیرائی کریں، تاکہ مُلک میں آرٹ کو فروغ اور فن کاروں کو روزگار ملے اور ان کی عزّتِ نفس بحال ہو۔ نیز، آرٹ کے شعبے میں دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن ہو۔