• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی بات کا آغاز ایک کہانی سے کرنا چاہتی ہوں۔ ایک تھکا ہارا، بھوکا پیاسا شخص آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے کہ اگر کھانے کو کچھ ہے تو دے دیں۔ آپ اُس پر ترس کھا کر اُسے گھر کے اندر لے آتے ہیں کہ کچھ کِھلا پِلا دیں،مگر وہ کھانا کھاتے ہی آپ پر پستول تان لیتا ہے اور دھکّے دیتے ہوئے کہتا ہے کہ’’تم یہاں سے نکلو، یہ گھر اب میرا ہے۔‘‘ آپ اُس شخص کو کیا کہیں گے؟ ڈاکو…! ایسا ہی ہےناں…؟ اُس کے خلاف مزاحمت آپ پر فرض ہے اور اگر وہ آپ کے گھر کی خواتین کے ساتھ بد تمیزی کرے، تو آپ کا خون کھول اُٹھے گا۔ وہ آپ کی بوڑھی ماں، بوڑھے بیمار باپ کو آپ کے سامنے مارے پیٹے، اُسے نماز نہ پڑھنے دے، آپ کے بیٹے کو قید کر دے اور اُسے طرح طرح کی اذیّتیں دے، آپ کو آپ کے گھر، زمینوں اور آپ کی مسجد سے بے دخل کر دے۔

پھر رفتہ رفتہ اُس کے بھائی بند بھی وہاں آتے چلے جائیں اور زور زبردستی ایک کے بعد ایک گھر، حتیٰ کہ پوری بستی خالی کروا کر آپ کو خیموں میں رہنے پر مجبور کر دیں، ایک طرح سے آپ کو اپنا غلام بنا لیں۔ زمین کا تھوڑا سا ٹکڑا دے کر آپ کو اُسی پر قناعت کا مشورہ دیں اور اِس ظلم و ناانصافی پر آپ کے گھرانے کے سب افراد، عزیز و اقارب اور ہم سائے یہی کہتے رہیں کہ’’ یہ ڈاکو بہت طاقت وَر ہیں، بس اب خاموشی سے انہیں مالک مان لیں۔‘‘تو کیا کریں گے آپ…؟؟

مسجدِ اقصیٰ، حضور نبی کریم ﷺ کی جائے امامت ہے۔ شبِ معراج، اللہ ربّ العالمین سے ملاقات کی خاطر جانے کے لیے اِسی مبارک جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر اِس کے مبارک ہونے کا ذکر آیا ہے۔یہ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل ہے، جس کی طرف سولہ، سترہ ماہ رُخ کرکے نماز پڑھی گئی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’ وہ پاک ہے، جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی تک سیر کروائی، جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دِکھائیں، بے شک وہ سُننے والا، دیکھنے والا ہے۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل، آیت نمبر1)۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا،’’اور ہم اسے اور لوطؑ کو بچا کر اُس زمین کی طرف لے آئے، جس میں ہم نے جہان کے لیے برکت رکھی ہے۔‘‘(سورۃ الانبیاء، آیت نمبر71) اور اِسی سورہ کی آیت نمبر 81میں ارشاد ہوا،’’اور زور سے چلنے والی ہوا سلیمانؑ کے تابع کی، جو اس کے حکم سے اُس زمین کی طرف چلتی، جہاں ہم نے برکت دی ہے اور ہم ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔‘‘سورۂ سبا میں فرمایا،’’اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان، جن میں ہم نے برکت رکھی تھی، بہت سے گاؤں آباد کر رکھے تھے، جو نظر آتے تھے اور ہم نے ان میں منزلیں مقرّر کر دی تھیں، ان میں راتوں اور دنوں کو امن سے چلو۔‘‘ (آیت نمبر، 18) پھر سورۃ المومنون کی50 ویں آیت میں ارشاد ہوا،’’اور ہم نے مریمؑ کے بیٹے اور اس کی ماں کو نشانی بنایا تھا اور اُنہیں ایک ٹیلے پر جگہ دی، جہاں ٹھہرنے کا موقع اور پانی جاری تھا۔‘‘

اسی طرح حضرت موسی ؑ اپنی قوم کو کہتے ہیں،’’اے میری قوم! اس پاک زمین میں داخل ہو جاؤ، جو اللہ نے تمہارے لیے مقرّر کر دی اور پیچھے نہ ہٹو، ورنہ نقصان میں جا پڑو گے۔‘‘(سورۃ المائدہ، آیت نمبر، 21)

تیسری مقدّس مسجد

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر نہیں کیا جا سکتا،ایک مسجدِ حرام، دوسری مسجدِ اقصیٰ اور تیسری مسجدِ نبویؐ۔‘‘۔حضور اکرم ﷺ کی آزاد کردہ لونڈی، حضرت میمونہؓ سے روایت ہے کہ بیتُ المقدِس میں نماز پڑھنے جایا کرو۔ اگر تم وہاں جا نہ سکو، تو اس کے چراغوں کے لیے تیل بھیج دیا کرو۔ اِسی وجہ سے بیتُ المقدِس میں ہمیشہ تیل سے کنویں بَھرے رہتے تھے۔‘‘

اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’میری اُمّت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا اور اُن کا دشمن اُنہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘صحابیؓ نے پوچھا’’ یا رسول اللہ ﷺ! وہ لوگ کہاں ہوں گے؟‘‘ حضورﷺ نے فرمایا’’ بیتُ المقدِس اور اس کے اردگرد ہوں گے۔‘‘اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ’’ اللہ کی راہ میں مرنے والوں کو مُردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں، خوش ہیں اور رزق پا رہے ہیں۔‘‘تو ہمیں اللہ کی کتاب پر یقین رکھنا ہے یا مادّہ پرست انسانوں کے ڈراووں میں آنا ہے۔

ایک ہی بات ہونی ہے، یا تو یہ دنیاوی خوف ہمیں مار دے گا یا پھر ہم اللہ کی کتاب پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ کی راحت بَھری زندگی پالیں گے۔اگر ہم قرآن پر یقین نہ رکھیں اور اُس پر عمل نہ کریں، تو ہماری کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔

حقیقت یہی ہے کہ صہیونی اپنے عقیدے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے کہ ہمیشہ اِسی حالت میں نہیں رہیں گے،کیوں کہ یہ اللہ کی شان نہیں ہے کہ وہ مومنوں کو مغلوب رکھے۔بیتُ المقدِس جنگ کی جگہ نہیں، بلکہ اُمّتِ مسلمہ کے شعائر میں سے ہے۔ ہمیں شکست خوردہ نہیں ہونا، بلکہ اِس موقعے پر دو باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پہلی بات: ہمیں مایوس نہیں ہونا

جب تاتاری بغداد میں داخل ہوئے، تو مسلمان مغلوب ہو گئے اور مسلمانوں کے خلیفہ کو قیدی بنا لیا گیا۔ اُن کو گندگی کے تھیلوں میں ڈالا گیا اور آگ میں جلایا گیا، لیکن علماء نے ہمیں خوش خبری دی کہ قسطنطنیہ ایک روز ضرور آزاد ہوگا۔ وہ ہمیں خوش خبری دیتے رہے کہ بہترین لشکر قسطنطنیہ کا لشکر اور بہترین امیر، اس لشکر کا امیر ہوگا۔ تاتاری ان علماء اور خطباء کو دیوانے سمجھتے تھے اور پھر سب نے دیکھا کہ مسلمانوں نے قسطنطنیہ فتح کرلیا۔

ہمارے والد قاضی حسین احمد کہا کرتے تھے کہ’’ ہم چھوٹے تھے، تو برطانیہ کی اِتنی وسیع و عریض سلطنت تھی کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، آج وہ سلطنت اِتنی سکڑ گئی ہے کہ وہاں سورج طلوع نہیں ہوتا۔ جب ہم چھوٹے تھے، تو سُرخ آندھی اور سوویت یونین سے ڈرایا جاتا تھا، مگر اب وہاں چھے مسلم ریاستیں قائم ہو چُکی ہیں۔‘‘آج بھی ہم کہتے ہیں کہ ’’وہی ہے، جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔‘‘( سورۃ الصّف، آیت نمبر9)

دوسری بات: نظریاتی منصوبہ بندی

ہمیں ضرورت جنگ کی نہیں، نظریاتی اور عقائد کی منصوبہ سازی کی ہے۔ آنے والی نسلوں کو عقیدے اور نظریئے کی بنیاد پر منظّم کریں، ان کی فکر کو جلا بخشیں۔ اُنھیں ایک ہی بات بتائیں کہ’’فلسطین مسلمانوں کا ہے، فلسطین ہمارا ہے، سارے کا سارا ہے۔‘‘

ایک کہاوت ہے کہ’’ وہ قرض کبھی ضائع نہیں ہوتا، جس کا مطالبہ کرنے والا اُس کے پیچھے موجود ہو۔‘‘میکسیکو کے لوگوں کی ایک بات بطور مثال پیش کی جاتی ہے کہ’’اُنہوں نے( مخالفین) ہمیں دفن کرنا چاہا، لیکن اُنہیں معلوم نہ تھا کہ ہم بیج کی طرح دوبارہ اُگ آئیں گے۔‘‘

آپریشن’’ طوفان الاقصیٰ‘‘ کی 4وجوہ

پہلی وجہ: مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی، اُسے یہودی شناخت دینے کی کوشش، ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے ایجنڈے پر تیزی سے کام، القدس کے باسیوں کی تذلیل، اُن کے علماء، شیوخ اور اہلِ علم و فضل کو جیلوں میں قید کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ نماز سے روکنے، پچاس حلقہ ہائے دروس کی بندش اور چند دن پہلے پانچ ہزار صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر اُس کی بے حرمتی کی۔ اس معرکۂ حق و باطل کو’’طوفان الاقصیٰ ‘‘ کا نام بھی اِسی وجہ سے دیا گیا۔

دوسری وجہ: دشمن فلسطینیوں کو Slow Death کی طرف دھکیل رہا تھا۔ ایک پوری نسل نے اس اذیّت میں آنکھ کھولی ہے۔ زندگی کی ہر محرومی سے دوچار، تعلیم، صحت، روزگار، گھر سے محرومی، سماجی اور معاشی مسائل کا ایک سلسلۂ لامتناہی ہے۔ہر کوئی وہاں سے نکلنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتا ہے اور وہ اِس کوشش میں سمندر بُرد ہو کر مچھلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

تیسری وجہ: وحشیوں نے قید، مار پیٹ اور تذلیل سے نوجوان فلسطینیوں کی زندگی جہنّم بنا دی ہے۔ صہیونی کہتے ہیں کہ’’ یہ فلسطینی کیڑے مکوڑے ہیں، انھیں جتنی اذیتیں دے سکتے ہو، دے لو۔‘‘ فلسطینی خواتین اُن کی قید میں ہیں اور اُن پر ہونے والے مظالم سے تنگ آکر یہ آپریشن کیا گیا۔

چوتھی وجہ: موصولہ خفیہ اطلاعات کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا کہ دشمن غزہ کو تباہ کرنے کے لیے ایک بھرپور حملے کا منصوبہ بنا چُکا ہے۔ دشمن اچانک حملے سے اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا، اُسے روکنے کی یہ واحد ترکیب تھی۔جن لوگوں پر یہ سب کچھ بیت رہا ہے، وہ حماس کے ساتھ کھڑے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں، مگر مَیں اور آپ جو نرم گرم بستروں میں اپنے بچّوں کے ساتھ آرام کر رہے ہیں، اُنھیں مفت کے مشورے دیئے چلے جا رہے ہیں۔

آپ دستِ تعاون بڑھائیں، نہ کہ تنقید کے تیر چلائیں۔ اُن کی اللہ جل جلالہ سے فریاد ہے کہ’’ الہٰی! ہم کم زور ہیں، ہماری مدد فرما۔ ہم محتاج اور تیری عنایت کے طلب گار ہیں، ہم پر کرم فرما۔ ہم عاجز ہیں، ہمیں غلبہ و قوّت عطا فرما۔ ہم رسوائی سے دوچار ہیں، ہمیں عزّت و اقتدار عطا فرما۔ کسی بھی افواہ پھیلانے والے اور ساتھ چھوڑ کر بھاگنے والے کے احسان سے ہمیں بچا۔‘‘

اللہ پر بھروسا: فلسطینی قرآن سے یقین کشید کرتے اور حوصلہ پاتے ہیں۔وہاں مرعوبیت سے پاک نسل پروان چڑھی ہے۔ اُنھوں نے دشمن کی سب سے بڑی کم زوری موت کے خوف کو استعمال کیا ہے۔ اپنی موت اور اپنی عمارتوں کے ملبوں کو برینڈ بنا دیا ہے۔ غزہ ظلم کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن گیا ہے۔اُنہوں نے برّی، بحری اور فضائی حملوں سے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا تصوّر پاش پاش کر دیا ہے۔ 

اُنہوں نے سوچا کہ ہمارے پاس پیش کرنے کے لیے یہی کچھ ہے اور پھر اپنی پوری نسل کے سر پر خُود داری اور عزّت و وقار کا تاج سجا دیا۔ حماس کی کالی داڑھیوں اور مضبوط عزم کے حامل جوانوں پر ہم جیسی ماؤں کی تو نظر ہی نہیں ٹھہرتی کہ شالا کہیں نظر نہ لگ جائے۔اللہ ان جوانوں کو پیروں کا استاد بنا دے۔ وہ اُمّت کی مائیں، جو اپنے بچّوں کو اپنے دودھ میں عزم، کام یابیاں اور یقین گھول کر پلاتی ہیں کہ ہر وقت شکست اور ناکامی کا تذکرہ قوموں کے لیے زہر ہوتا ہے۔ 

اِدھر ہمارے بچّوں کو آج علم ہی نہیں کہ کبھی ہم نے بھی دنیا کی قیادت کی تھی۔ جیسے آج مغرب دنیا کا امام ہے، کبھی ہمارے پاس بھی گلستانِ اندلس کی ڈالیوں سے لوگ علم کے پھول چُننے آتے تھے۔ ہماری روشن تاریخ اور ہمارے اسلاف کے تذکرے ہمیں پُرعزم رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ زندہ تہذیبیں اپنے اسلاف کی روایات تابندہ رکھتی ہیں۔

فلسطین کی سر زمینِ مُشک بار تاریخ سے فروزاں ہے۔فلسطینیوں کی نئی نسل کو اِتنا پُرعزم دیکھ کر اسرائیل بوکھلا گیا ہے۔ بھلا کبھی موت سے پیار کرنے والوں کو بھی کسی نے شکست دی ہے؟ شیخ احمد یاسین نے اُنہیں فُٹ بال کے میدانوں سے چُنا اور اُن کے سینے اُمید، آزادی، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبّت سے بھر دیئے۔ اسرائیل سے شدید نفرت کی آگ اُن کے سینوں میں جلا دی۔ یہ اللہ کی راہ کے وفا دار سپاہی ہیں، جنہیں ان کا مہربان ربّ کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔

اِتنے ناداں بھی نہیں، جاں سے گزرنے والے…!!

فلسطینی سرزمین پر1948 ء میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی سرپرستی میں صہیونی ملیشیا کا قبضہ کروایا گیا اور لاکھوں نہتّے فلسطینی گھرانوں کو زبردستی اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا۔ ان واقعات کو فلسطینی’’نکبہ‘‘ یعنی آفت کا نام دیتے ہیں۔ دنیا بَھر میں بسنے والے ڈیڑھ کروڑ اور تاریخی فلسطین کی سرزمین پر رہنے والے 75لاکھ فلسطینیوں کے لیے نکبہ کا یہ عمل گزشتہ75 برسوں سے جاری ہے۔ 

نکبہ آج تک ختم نہیں ہوا۔ ہر سال نئی صہیونی نو آبادیاں تعمیر کی جاتی ہیں۔ فلسطینی گھرانوں کو، جن میں بچّے، بوڑھے اور خواتین شامل ہیں، اسرائیلی فوج کی نگرانی میں گھروں سے زبردستی نکالا جاتا ہے۔ بچّے اور خواتین دہائی دیتے ہیں، لیکن اُن کی فریاد سُننے والا کوئی نہیں۔ اقوامِ متحدہ، مہذّب دنیا کا کوئی مُلک، کوئی مسلمان حُکم ران، فیس بُک کا کوئی دانش ور، کوئی بھی تو نہیں۔ بلڈوزر اُن کے گھر مسمار کر جاتے ہیں، بچّے ملبے پر بیٹھ کر چیختے رہتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں، کچھ عرصے بعد وہاں نو آباد کاروں کی نئی کالونیاں تعمیر ہو جاتی ہیں اور یہ نئے یہودی آبادکار ہمیشہ مسلّح رہتے ہیں۔ 

اسرائیل ایک نسل پرست مُلک ہے، جہاں کسی فلسطینی کو شہری حقوق حاصل نہیں۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹس تک الگ الگ رنگ کی ہوتی ہیں۔ اسرائیلی شہری جو راستہ آدھے گھنٹے میں طے کرتے ہیں، فلسطینی دس گھنٹوں کے ذلّت آمیز انتظار کے بعد طے کرتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی قتل ہوتے ہیں، لیکن دنیا کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ اُن کی خواتین کی مَردوں کے سامنے توہین کی جاتی ہے اور وہ خون کے آنسو پی کر رہ جاتے ہیں۔ آج جو دانش وَر اُنہیں طرح طرح کے مشورے دے رہے ہیں، وہ ایک ماہ اُن کے ساتھ گزار کر آئیں، پھر ہمیں وہاں کے حالات بتائیں۔ 

غزہ کے کیمپس کے اندر گزشتہ75 برسوں سے رہنے والوں میں سے بیش تر وہ ہیں، جن کے آباء و اجداد کو1948 ء میں اُن کے گھروں سے نکال کر بے دخل کیا گیا تھا۔ اُس وقت سے ہر روز وہ ایک نئے نکبہ سے دوچار ہیں۔ صرف رواں سال کے پہلے9ماہ میں ڈھائی سو سے زائد فلسطینی شہید کیے گئے۔اگر کسی کو ہم دردی کے دو بول کہنے کی توفیق نہیں ہوتی، تو کم ازکم اُن کے احساسات کی توہین تو نہ کریں۔

سورۃ الحج میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’جن لوگوں سے (ناحق) قتال کیا جاتا ہے، اُنھیں (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے، کیوں کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے، بے شک، اللہ اُن کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔‘‘آرام دہ بستروں پر لیٹے لوگ خوف سے تَھر تَھر کانپ رہے ہیں اور جو اپنی جان ہتھیلی پر لیے پِھر رہے ہیں، وہ اِس دانش وَری سے بے نیاز ہیں۔ بدر کے میدان سے آج تک تاریخ کا دھارا ایسے ہی بہادروں نے بدلا ہے اور بزدلوں نے ایسے ہی تبصرے کیے ہیں۔ برسوں سے محصور بیس لاکھ انسانوں کے پاس اور راستہ ہی کیا ہے؟ نصیحتیں کرنے والے اُنھیں ویسے بھی فراموش کر ہی چُکے تھے۔

فلسطین کی جدوجہدِ آزادی سے دنیا اور بالخصوص مسلمانوں میں دو واضح کیمپ نظر آرہے ہیں- ایک وہ، جو کہتے ہیں کہ فضائے بدر پیدا کر، پھر اِن شاء اللہ، اللہ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔دوسرا کیمپ وہ ہے، جو مصلحتوں، حکومتی پالیسیز، اگر مگر اور تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو والی پالیسی پر چل رہا ہے۔ مطمئن رہیں، جانیں وہ پہلے بھی دے رہے تھے، آئندہ بھی دیتے رہیں گے، یہ اُن کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ 

اسرائیل پہلے بھی اُنہیں مار رہا ہے، مزید مار لے گا، اُن کے پاس بچانے کو ویسے بچا ہی کیا ہے؟ آپ کو کلمۂ خیر کی توفیق نہیں ہوئی، خیر ہے، ویسے اُنہیں بھی آپ سے کوئی خاص اُمید نہیں…!!البتہ، قرآنِ پاک کی یہ آیات ضرور ذہن میں رکھیے۔’’اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مَردوں، عورتوں اور بچّوں کی خاطر نہ لڑو، جو کہتے ہیں’’ اے ہمارے ربّ ! ہمیں اِس بستی سے نکال، جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے۔‘‘(سورہ النساء، آیت نمبر75)اور’’اگر اللہ تمہاری مدد کرے گا، تو تم پر کوئی غالب نہ ہوسکے گا اور اگر اُس نے مدد چھوڑ دی، تو پھر ایسا کون ہے، جو اُس کے بعد تمہاری مدد کر سکے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران، آیت نمبر160)

اسلام کے لیے لڑو، لڑ نہیں سکتے تو لکھو، لکھ نہیں سکتے، تو بولو، بول نہیں سکتے، تو ساتھ دو، ساتھ بھی نہیں دے سکتے، تو جو لڑ، بول اور لکھ رہے ہیں، اُن کی مدد کرو۔ اگر مدد بھی نہیں کر سکتے، تو اُن کے حوصلوں کو پست مت کرو، کیوں کہ وہ آپ کے حصّے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔

مَیں اب مرتے دَم تک نہیں بھول سکتی…!!

مَیں اب مرتے دَم تک نہیں بھول سکتی، آئس کریم کا وہ ٹرک، جس میں غزہ کے معصوم پھولوں کی لاشیں رکھی ہوئی تھیں۔ مَیں اب مرتے دَم تک نہیں بھول سکتی، اُس شخص کو، جو ایک ٹیڈی بیئر کے ساتھ ملبے پر بیٹھا تھا۔ مَیں نہیں بھول سکتی اُس باپ کو، جو اپنے بچّے کے جسم کے ٹکڑے ایک تھیلے میں ڈالے جا رہا تھا۔ 

مَیں نہیں بھول سکتی، چھے سالہ وادیہ کو۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُن لوگوں کو، جنہیں جنوب کی طرف ہجرت کے دَوران شہید کیا گیا۔ مَیں نہیں بھول سکتی، اُس لڑکے کو، جو چیخ چیخ کر پوچھ رہا تھا’’ کہاں ہیں عرب؟‘‘ مَیں کبھی بھی نہیں بھول سکتی کہ اُنہوں نے سڑکوں پر موبائل فونز کی روشنی میں آپریشن کیے تھے۔ 

مَیں نہیں بھول سکتی، اسپتال کے اُس میدان کو، جو لاشوں اور انسانی اعضاء سے بھرا ہوا تھا۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس بچّے کو، جو آنکھیں بند کیے بیٹھا کانپ رہا تھا۔ مَیں کبھی بھول سکتی اُس بچّی کو، جو روتے ہوئے پکار رہی تھی’’ مجھے میری ماں چاہیے۔‘‘ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی اُس شخص کو، جس نے مُردہ بچّے کو اُٹھایا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا’’ حسبنا الله ونعم الوکیل۔‘‘ مَیں نہیں بھول سکتی، درد کی حالت میں’’ الله اکبر‘‘ کہتے ہوئے اُن کے ایمان و استقامت کی بلندی کو۔ 

مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس لڑکے کو، جو دَم توڑتے بھائی کو کلمۂ شہادت کی تلقین کر رہا تھا۔ مَیں نہیں بھول سکتی اُس لڑکے کو، جو کہہ رہا تھا’’ مَیں صرف الله سے ڈرتا ہوں۔‘‘مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس ڈاکٹر کو، جسے شفٹ کے دَوران پتا چلا کہ اُس کے گھر پہ بم باری ہوئی ہے۔ مَیں نہیں بھول سکتی، مریم کو، جسے درد اور بے ہوشی کی کسی دوا کے بغیر سَر پر سترہ ٹانکے لگائے گئے۔ 

مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُن بچّوں کو، جو لوگوں کو اپنے اپنے خواب سُنا رہے تھے۔ مَیں نہیں بھول سکتی، اُس باپ کو، جو اپنے بچّے سے کہہ رہا تھا کہ یہ بموں کی نہیں، کھلونوں کی آواز ہے۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، اُس ماں کو، جس نے آخری بار اپنے بچّے کو گلے سے لگايا تھا۔ 

مَیں نہیں بھول سکتی، اُن لوگوں کو، جو نیند آنے پر سوئے اور پھر کبھی نہیں جاگے۔ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی، ملبے تلے دَبی اُن پھول سے بچّوں کی لاشوں کو۔ اور… مَیں مَرتے دم تک نہیں بُھول سکتی، اِن مسلمان لیڈرز کی خاموشی کو، جن کے پاس طاقت تھی، اختیار تھا، لیکن اُنہوں نے کچھ نہ کیا۔ جن کے دل، ضمیر بالکل مُردہ ہیں۔

تو، پھر منزل تمھاری ہے…

اگرتم دل گرفتہ ہو کہ

تم کو ہار جانا ہے

تو پھر تم ہار جاؤ گے

اگر خاطرِ شکستہ ہو کہ

تم کچھ کر نہیں سکتے

تو یقیناً کر نہ پاو ٔگے

یقین سے عاری ہو کر

منزلوں کی سمت چلنے سے

کبھی منزل نہیں ملتی

کبھی کنکر کے جتنےحوصلے والوں سے

بھاری سِل نہیں ہلتی

زمانے میں ہمیشہ کام یابی

اُن کے حصّے میں ہی آتی ہے

جو اوّل دن سے اپنے ساتھ

عزمِ مصمّم لے کر چلتے ہیں

کہ جن کے دل میں عزم و حوصلہ

اِک ساتھ پلتے ہیں

اگر تم چاہتے ہو، کام یاب و کام راں ہونا

تو بس رختِ سفر میں

یقین و عزم کی مِشعل جلا رکھنا

سفر دشوار تر ہو تب بھی

ہمّت و حوصلہ رکھنا

سفر آغاز جب کرنا، تو بس سمجھ لینا

کہ جہاں میں کام یابی کی

یقیں والوں سے یاری ہے

اور اگر، تم بھی یقیں رکھو

تو پھر منزل تمہاری ہے