کیا حماس کا آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ حیران کن ہے؟ یقیناً یہ آپریشن اسرائیلی فوج اور انٹیلی جینس کو حیرت اور شدید نقصان سے دوچار کر گیا مگر عشروں سے اسرائیلی تسلط میں بدترین حالات کا سامنا کرنے والے مظلوم فلسطینیوں کی طرف سے یہ ردعمل متوقع تھا ۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا حالات ہیں کہ حماس قابض ریاست پر اتنا بڑا اور منظم حملہ کرنے پر مجبور ہوئی۔ 1۔اسرائیل نے جون2007ء سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور اسے پوری دنیا سے کاٹ کر کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے، 22لاکھ آبادی 16سال سے شدید پابندیوں کی زد میں ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں اور زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے، اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے میں ناکام رہی ہیں۔ 2۔ آج غزہ میں بیروزگاری کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ، یونیسف کی جون 2022ء میں جاری ہونیوالی رپورٹ کے مطابق2006ء میں بیروزگاری کی شرح 34فیصد تھی جو 2022 ء کی پہلی سہ ماہی میں 46فیصد سے تجاوز کرگئی۔ 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں یہ شرح 62فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔ مالی مسائل کی وجہ سے 31 فیصد گھرانے اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں 62فیصد آبادی کو خوراک کی شکل میں امداد کی ضرورت ہے، 24گھنٹوں میں صرف 13گھنٹے ایسے ہوتے ہیں جب غزہ کی پٹی میں بجلی دستیاب ہوتی ہے، ناکہ بندی کی وجہ سے اسپتالوں میں بنیادی ضرورت کے سامان کی کمی رہتی ہے ۔ اگر کسی بیماری کے خصوصی علاج کے سلسلے میں مغربی کنارے کی جانب جانے کی ضرورت پیش آئے تو اسرائیلی حکام اکثر درخواست کی منظوری میں اتنا وقت لگا دیتے ہیں کہ مریض جان سے ہی گزرجاتا ہے3۔حماس کی حالیہ کارروائی کی ایک وجہ اسرائیل کی قید میں موجود بدترین حالات کا سامنا کرنیوالے ہزاروں قیدی ہیں۔ اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں ، ان قیدیوں کو انتہائی تنگ جگہ پر انتہائی اذیت ناک ماحول میں رکھا جاتا ہے ، اکثر قیدی ایسے ہیں جو بغیر کسی الزام کے گرفتار ہیں ، انہیں ایک جانب علاج سے محروم تو دوسری طرف بھوکا اور پیاسا بھی رکھا جاتا ہے ۔ 4۔اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں مسلسل نہتے اور مظلوم فلسطینی شہریوں کو قتل کررہا ہے ، اقوام متحدہ کی اگست میں جاری رپورٹ کے مطابق صرف 2023 ء میں 172فلسطینی شہید کیے گئے جبکہ2022 ء میں 34بچوں سمیت 155افراد کو قتل کیا گیا ۔ شہادتوں کی یہ تعداد 2005ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ 5۔فلسطین پر قابض صہیونی ایک زمانے سے مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا خواب دیکھ رہے ہیں ، صہیونی انتہاپسند آئے روز مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہیں جو کہ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطینی عوام قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ کے محافظ ہیں اور یہ مزاحمت کا خوف ہے جو اسرائیل کو اس کے ہدف کی طرف بڑھنے سے روک رہا ہے ۔ حماس کی حالیہ کارروائی کو اسی لیے طوفان الاقصیٰ کا نام دیا گیا ہے۔ 6۔گریٹر اسرائیل سے متعلق یہودی قیادت کے عزائم پوشیدہ نہیں ہیں، رواں سال مارچ میں پیرس میں اسرائیلی وزیر خزانہ نے تقریر کی تو پوڈیم پر لگے گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مقبوضہ فلسطینی علاقے، شام کے کچھ حصوں اور اردن کو یہودی ریاست کا حصہ دکھایا گیا، رواں سال ستمبر میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران پیش کیا جس میں غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیلی ریاست کا حصہ دکھایا گیا تھا گویا نتن یاہو کسی دو ریاستی حل کو مانتا ہی نہیں ، وہ صرف ایک ریاست اسرائیل پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ صہیونی دماغ مدینہ منورہ کو بھی اسرائیل کا حصہ بنانے کی ناپاک خواہش رکھتا ہے۔7۔عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی خبروں نے بھی غزہ کے اندر بے چینی پیدا کررکھی تھی ، فلسطینی یہ سمجھتے ہیں کہ اس قضیے میں عرب ریاستیں انکی حلیف ہیں مگر جب مادی وسائل سے لیس یہ ریاستیں ہی اسرائیل کو آہستہ آہستہ تسلیم کرتی جارہی ہیں تو پھر آزاد فلسطینی ریاست کا خواب کیسے پورا ہوگا؟ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے تعلقات نے بھی حماس کو مجبور کیا کہ مزاحمت کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا جائے۔ ملک فلسطینیوں کا ، زمین فلسطینیوں کی مگر عالمی طاقتوں کی مدد سے ناجائز قبضہ صہیونیوں کا اور جب اس قبضے کیخلاف عالمی قوانین کے مطابق جائز مزاحمت کی جائے تو سوال بھی فلسطینیوں سے! حماس کی مزاحمت اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کا یہ بیان بجا طور پر فلسطینی مزاحمت کیساتھ اظہار یکجہتی ہے کہ حماس دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ آزادی کی تحریک ہے جو اپنی سرزمین کی غاصب ریاست کے قبضے سے آزادی کیلئے آئینی اور قانونی جدو جہد کررہی ہے۔ ملائشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہٰنیہ کو فون کیا اور انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ حالیہ واقعات نے جہاں ایک بار پھر اسرائیل کی ناپاک ریاست کیخلاف بیداری کی لہر پیدا کی ہے وہیں مغرب کا دوہرا معیار بھی بے نقاب ہوگیا ہے، مغربی شہری خود اپنی ریاستوں کے اسرائیل نواز موقف کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور بہت بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ امت مسلمہ نے بھی غزہ کے عوام سے یکجہتی اور اسرائیل کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ مسلم حکمرانوں کے سامنے یہ سوال پوری شدت سے آکھڑا ہوا ہے کہ قبلہ اول کی آزادی کیلئے وہ کب تک عملی اقدامات سے گریز کرتے ہوئے صرف لب کشائی کرتے رہیں گے؟۔ ریاست پاکستان کو بھی مسئلہ فلسطین پر قائداعظم کے فرامین کی روشنی میں آگے بڑھنا ہوگا اور کسی دو ریاستی حل کے بجائے اپنے اس اصولی موقف پر قائم رہنا ہوگا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے جس طرح کشمیر پاکستان کا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)